ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
اِس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کاغصہ ٹھنڈا ہو گیا اَور نبی اُمیہ اَور بنو ہاشم میں جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اِس کے بعد سعید بن العاص عاملِ مدینہ نے نماز ِ جنازہ پڑھائی اَور لاش مبارک جنت البقیع میں حضرت فاطمہ زَہراء رضی اللہ عنہا کے پہلو میں سپردخاک کی گئی ۔ (اِستیعاب ج ١ ص ١٤٥ و اُسد الغابہ ج ٢ ص ١٥ ) حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا روضۂ نبوی ۖ کے بجائے بقیع کے گورِ غریباں میں دفن کیا جانا بھی آپ کے رُوحانی تصرف کا نتیجہ تھا کہ جس پیکر صلح وآشتی نے زندگی میں مسلمانوں کے خون کی قیمت پر دُنیاوی جاہ و حشم حاصل کرنا پسند نہ کیا اَور خونریزی سے بچنے کے لیے سلطنت و حکومت جیسی چیز کو ٹھکرا کر عزلت نشینی کی زندگی اِختیار کی اُس کے جسد ِخاکی نے مرنے کے بعد بھی یہ کرشمہ دِکھایا کہ روضۂ نبوی ۖ کے مقابلہ میں بقیع کے گور ِغریباں میں دفن ہوا لیکن حرمِ نبوی ۖ میں مسلمانوں کا خون نہ گرنے دیا ورنہ اِس قیمت پر جدِامجد کے پہلو میں جگہ ملنی بہت آسان تھی۔ مدینہ میں ماتم : حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی رِحلت معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ صلح ومسالمت کا ماتم تھا،حلم و عفو کا ماتم تھا، صبرو تحمل کا ماتم تھا، اِستغناء و بے نیازی کا ماتم تھا، خاندانِ نبوت کے چشم و چراغ کا ماتم تھا، اِس لیے آپ کی وفات پر مدینہ میں گھر گھر صف ِ ماتم بچھ گئی بازار بند ہوگئے گلیوں میں سنّاٹا چھاگیا۔ بنی ہاشم کی عورتوں نے ایک مہینہ تک سوگ منایا۔ حضرت اَبو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں فریادو فغاں کرتے تھے اَور پکار پکار کر کہتے تھے کہ لوگو! آج خوب رولو کہ رسول اللہ ۖ کا محبوب دُنیا سے اُٹھ گیا۔ (تہذیب التہذیب ج ٢ ص ٣٠١) جنازہ میں اِنسانوں کا اِتنا ہجوم تھا کہ اِس سے پہلے مدینہ میں کم دیکھنے میں آیاتھا۔ ثعلبہ بن اَبی مالک جو مٹی میں شریک تھے راوی ہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے جنازہ میں اِتنا اِژدحام تھا کہ اگر سوئی جیسی مہین چیز بھی پھینکی جاتی توکثرت ِ اِژدحام کی وجہ سے زمین پر نہ گرتی ۔ (تہذیب الکمال ص ٨٩)۔(جاری ہے)