ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
مذہبی رَواداری ( حضرت مولانا محمد حنیف صاحب جالندھری، ناظمِ اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ ) مذاہب کے درمیان مفاہمت اَور مکالمہ کی بات ایک عرصہ سے دُنیا بھر میں چل رہی ہے اَور مختلف مذاہب اَور نظریات کے حضرات اِس پر اِظہار ِخیال کر رہے ہیں۔ عام طور پر اِس حوالہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان رَواداری، مفاہمت اَور مکالمہ و گفتگو کی فضاء کو فروغ دینا ہر دَور میں ضروری رہا ہے مگر اَب جبکہ فاصلوں کے مسلسل سمٹتے چلے جانے کے بعد دُنیا ایک گلو بل ویلج کی صورت اِختیار کر رہی ہے اِس کی ضرورت پہلے سے زیادہ بڑھ رہی ہے تاکہ مختلف مذاہب اَور عقائدو نظریات کے لوگ مل جُل کر ایک سو سائٹی میں رہ سکیں اَور مذہب کے حوالہ سے جو اِختلافات ہیں وہ کشمکش اَور تصادم کی صورت اِختیار نہ کریں۔مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان کشیدگی اَور تنازعات کے شدت پسندانہ اِظہار کو بھی اِس ضرورت کی ایک وجہ قرار دیا جا رہا ہے اَور اِس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کے درمیان تصادم، محاذ آرائی اَور قتل و قتال کا جو سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اُس کا تسلسل آج بھی موجود ہے اَور عنوان تبدیل ہونے کے باوجود وہ مذہبی شدت پسندی اَور اِنتہاء پسندی بدستور اِنسانی معاشرے میں موجود ہے۔ گزشتہ صدیوں میں یہودیوں اَور مسیحیوں کے درمیان جو کچھ ہوا ہے اُس کی ایک ہلکی سی جھلک ''ہولو کاسٹ'' کے حوالہ سے بیان کی جانے والی تلخ داستان کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے اَور مسیحی مذہب کے کیتھولک پروٹسٹنٹ اَور آرتھوڈکس فرقوں کے درمیان طویل خانہ جنگی کی صدائے بازگشت شمالی آئرلینڈکی فضاؤں میں اَب بھی سنائی دیتی ہے جبکہ مشرقی یورپ کے ممالک کے کمیونزم کے شکنجے سے نکل جانے کے بعد وہاں کی مسلم آبادی بالخصوص بوسنیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔اَلغرض مسلمانوں اَور مسیحیوں، مسیحیوں اَور یہودیوں، فلسطین میں یہودیوں اَور مسلمانوں اَور مختلف اَدوار میں اِن مذاہب کے باقی فرقوں کے درمیان داخلی طور پر خونریزی اَور تصادم کی ایک لمبی تاریخ ہے جو مختلف