ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اَفسروں کے معاملہ میں خشک اَخلاق تھے توبہ توبہ! بلکہ جب کوئی اَفسر یا حاکم آپ کے دَر ِدَولت پر حاضر ہو تا آپ حتی المقدور اُس کی خاطر مدارات کرتے تھے ۔ چنانچہ گذشتہ سال ١٩٥٦ ء میں ایک دِن مہابیر تیاگی (سابق وزیر دفاع ) آئے تو آپ نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے اَور چائے اَور مٹھائی پیش کی، چلتے وقت تیاگی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میری خواہش ہے کہ کوئی خدمت میرے سپرد کردیں۔ تب حضرت نے اِرشاد فرمایا : تمہیں غیروں سے کب فرصت، ہم اپنے غم سے کب خالی چلو بس ہو چکا ملنا ، نہ تم خالی نہ ہم خالی مولانا اَبو الکلام آزاد اَور صدر جمہوریہ ہند تشریف لائے تو آپ نے حضورِ اَکرم ۖ کے اِرشاد : اِذَا اَتَاکُمْ زَعِیْمُ الْقَوْمِ فَاَکْرِمُوْہُ جب کسی قوم کا سردار آئے تو اُس کا اِستقبال و اِ کرام کرو، ہمیشہ اِسی پر عمل کرتے ۔ حضور پاک ۖ کی بھی یہ سیرت پاک ہے آمد ِوفود کے بیان میں متعدد واقعات ملتے ہیں ۔ اِس موقع پر چند پست خیال اَخباروں اَور رِسالوں نے اپنی پوری نا واقفیت کا ثبوت دیا تھا کہ دارُ العلوم دیوبند اَور اُس کے اَکابر نے نعوذ با للہ حرام کا اِرتکاب کیا ہے۔اُس وقت اُن کی نکتہ چینی کا جواب دینا اُن کی نام آوری کے لیے مفید ہو تا، ایسے اَخباروں اَور رسالوں کی خدمت میں مذکورہ حدیث کے علاوہ سورئہ عبس کی تفسیر ، مختلف وفود کا مدینہ منورہ میں آنا ،آنحضرت ۖ کا یہودی مہمان کو مسجد نبوی میں ٹھہرانا، وغیرہ اَحادیث پیش ہیں ۔ رُفقائِ جیل کے ساتھ : رُفقائِ جیل کے ساتھ حضرت کا کیسا برتائو تھا اُس کا صحیح نقشہ تو وہی پیش کرسکتے ہیں جن کو حضرت کے ساتھ رہنے کا اِتفاق ہواہے لہٰذابندہ اُن ہی رُفقاء کے حوالہ سے کچھ عرض کرے گا ۔ جناب اَچاریہ کرپلانی صاحب نے رام لیلا گرائونڈ دہلی کے تعزیتی جلسہ میں حضرت شیخ الاسلام کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا : ''میں اُن کے ساتھ جیل میں رہا ہوں اُن کا ڈھنگ نرالا تھا۔ اکیلے کبھی نہ کھاتے تھے بلکہ دُوسرے معمولی قیدیوں کے ساتھ مل کر کھا تے تھے اَور بھائیوں جیسا سلوک کرتے تھے ۔ (مدینہ ٢١ دسمبر ١٩٥٧ ئ)