ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
آمد و صرف کے ایک ایک پرزے کو بہ ذاتِ خود دیکھتے تھے، وہ دارُالعلوم کے ملازمین کا بعض دفعہ ایک دو روپے کے اُن مصارف پر مواخذہ کرلیتے تھے جنھیں وہ غیر ضروری بے قاعدہ یا ناروا سمجھتے تھے۔ یہ راقم اہتمام میں جاتا تو اکثر وہ محاسبی کے رجسٹروں اَور آمد و صرف کے واؤچروں کو دیکھتے ہوے نظر آتے۔ دارُالعلوم کے وسیع تر ماحول میں آمد وصرف کو دقت ِنظر سے جانچنے اَور مالی شعبے کی شفافیت کو مطلوبہ معیار پر باقی رکھنے کی ذاتی کوشش کرنے کے حوالے سے وہ منفرد شناخت کے حامل مہتمم تھے۔ دارُالعلوم کے تعلق سے اُن کی اَمانت ودیانت بلکہ دارُالعلوم کے پیسے کے سلسلے میں اِنتہائی بخالت ضرب المثل بن گئی تھی۔ ہر چند کہ اُن کی اِس ''بخالت'' سے بعض دفعہ بعض پریشانیاں کھڑی ہوجاتی تھیں لیکن اِس سے دارُالعلوم کے تئیں اُن کی غیرمعمولی اَپنائیت اَور قوم کے پیسے کی حد درجہ نگہداشت کی اُن کی خوبی اُجاگر ہوتی ہے جو ہر ایک کے لیے لائق ِرشک وقابل ِتقلید تھی۔ دارُالعلوم میں آمد وصرف کا نظام بہت بھاری بھرکم ہے، حضرت رحمة اللہ علیہ اپنے تئیں سارے چھوٹے بڑے مصارف پر نگاہ رکھنے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دیتے تھے، حضرت رحمة اللہ علیہ کی طرح حساب کتاب پر براہِ راست نگاہ رکھنے والا سربراہِ اعلیٰ کسی اِدارے کو شاید ہی نصیب ہوا ہوگا۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کی بطور ِمہتمم کے ایک بڑی شناخت اُس کے لیے ہمہ وقت کی فکرمندی تھی، ایسا لگتا تھا کہ اُنھوں نے اِسی کے غم کو اپنا غم بنالیا ہے۔ دارُالعلوم کے لیے سوچنا، اُس کے مسائل کو اَوڑھ لینا، اُس کی ضروریات، ترقیات اَور اُس کی ہمہ جہت بھلائیوں کے لیے اپنے ذہن میں خاکے مرتب کرتے رہنا، لگتا تھا کہ اُن کی دوا، غذا اَور اُن کی راحت و عافیت کا ناگزیر سامان ہے۔ اللہ نے اُنھیں خوش حال پیدا کیا تھا، بڑی زمین جائداد کے مالک تھے، شہر بجنور میں سامانِ راحت سے بھرا پُرا اُن کا محل نما اپنا گھر اَور اُن کے گھر کے پاس ہی اُن کے سارے اہلِ خاندان کے مکانات تھے، جہاں اُنھوں نے بچپن سے بڑھاپے تک کی عیش وراحت کی زندگی گزاری تھی لیکن اُن سارے اَسبابِ راحت کو چھوڑ دارُالعلوم کی مسجدِ قدیم کے اِحاطے کے ایک بالائی کمرے میں سادہ سی زندگی گزارتے، اپنے مصارف سے تیار کرائے گئے مطبخ کے کھانے پر اِکتفاء کرتے، بڑھاپے کی کمزوری اَور اُس سے پیدا شدہ بہت سے عوارض اَور تکالیف کو جھیلتے اَور نہ صرف کمرے کا کرایہ اَداکرتے بلکہ دارُالعلوم سے کسی طرح کا اَدنیٰ سے اَدنیٰ فائدہ اُٹھانے کا بھی معاوضہ پیش فرماتے۔ اگر کسی مجبوری سے مہینے دو مہینے بعد گھر جاتے تو وہاں بھی ہر وقت دارُالعلوم ہی کی فکر ستاتی رہتی، ٹیلی فون سے