ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
قسط : ٩ اَنفَاسِ قدسیہ قطب ِ عالم شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمدصاحب مدنی کی خصوصیات ( حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب بجنور ی ) فاضل دارُالعلوم دیوبند و خلیفہ مجاز حضرت مدنی اَفسروں کے ساتھ : اَولاً تو آپ اَفسروں اَور حکام کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتے تھے اَور نہ اُن سے ربط وضبط وتعلق ہی ایسا رکھتے تھے جو آپ کی دَرویشانہ اَور عالمانہ شان کے منافی ہو ۔ذیل کے واقعہ سے آپ کا اِستغناء عن الحکومت ظاہر ہوتا ہے ۔ غالباً فروری١٩٥٥ء کا واقعہ ہے کہ موضع ڈاسنا (تحصیل غازی آباد)میں جلسہ تھا ۔ حضرت وہاں تشریف لے گئے تھے بندہ (راقم الحروف)بھی موجود تھا ۔ دہلی کے ایک صاحب نے عرض کیا حضور یہاں سے فارغ ہو کر دہلی تشریف لے چلیے ۔ حضرت نے فرمایا کیوں ؟اُنہوں نے کہا کہ صدر جمہوریہ کے پاس چلنا ہے تو حضرت نے فرمایا : مجھے کیا ضرورت ہے کہ وہاں جائوں ، وہ بادشاہ میں فقیر، میرا اُن کا کیا جوڑ ۔ اَب وہ پہلے کے راجندر پر شاد نہیں ہیں اَب تو وہ بادشاہ ہیں ۔ میں نے بڑے بڑے اَفسروں اَور وزیروں کو دیکھا ہے کہ حضرت کے پیچھے ہاتھ باندھے پھرا کرتے تھے ۔ مصر سے کرنل اَنوارُ السادات آئے تو وہ بھی پیچھے پیچھے ہاتھ باندھے پھرتے تھے ۔ موصوف نے اپنی ایک خواہش ظاہر کی کہ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کے ساتھ فوٹو کھنچوائوں ، حضرت نے سختی سے منع فرمایا اَور وہ تمام حدیثیں سنا ڈالیں جن میں تصویر کشی کی وعیدیں آئی ہیں ۔ ایک صاحب نے عرض کیا حضرت میرا یہ کام اَٹکا ہے آپ فلاں وزیر کے پاس سفارشی خط لکھ دیں ۔ حضرت نے اِرشاد فرمایا : میری اُن کی رسمِ اُلفت مٹ گئی مدتیں گذریں ، زمانہ ہو گیا