ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
اِسلام کی اِنسانیت نوازی ( حضرت مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری،اِنڈیا ) جنگ میںعورتوں اَور بچوں کو قتل کر نے کی ممانعت : اِسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جنگی جنون میں اِنسان اِتنا مدہوش نہ ہوجائے کہ جو بھی اُس کے سامنے آئے اُسے اَندھادُھند جارحیت کا نشانہ بناتا چلا جائے بلکہ جنگ کی حالت میں بھی اِس بات کا ہوش رکھنا لازم ہے کہ مقابلہ میں کون سامنے ہے؟ جو لوگ مقابلہ میں نہ ہوں یا کمزور اَور بے قصور ہوں جیسے عورتیں، بچے، بوڑھے، اَور دُنیاوما فیہا سے بے خبر ہوکر یکسوئی کے ساتھ عبادت کرنے والے لوگ، تواِن سے کچھ تعرض نہ کیا جائے۔ ایسے بے قصوروں کو بِلاوجہ قتل کردینا اِسلام میں سنگین جرم ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںکہ کسی غزوہ کے موقع پر آنحضرت ۖنے ایک مردہ عورت کی لاش دیکھی جسے قتل کردیاگیاتھاتو آپ ۖ نے عورتوں اَور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا (مسلم شریف ٢/٨٤، مصنف ابن ِاَبی شیبہ ٦/٤٨٦) ایک اَور روایت میں ہے کہ خلیفۂ اَوّل اَمیرالمؤمنین سیّدنا اَبو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک جہادی لشکر کو روانہ کرتے وقت اُس کے کمانڈر کو دس ہدایتیں اِرشاد فرمائیں : (١)کسی بچہ کو قتل مت کرنا (٢)کسی عورت پر ہاتھ مت اُٹھانا (٣) کسی ضعیف بوڑھے کو مت مارنا (٤) کوئی پھل دار درخت مت کاٹنا (٥) کسی بکری اَور اُونٹنی وغیرہ کو خواہ مخواہ ذبح مت کرنا، ہاں اگر کھانے کی ضرورت ہو تو حرج نہیں (٧) کسی باغ کو نہ جلانا (٨) کسی باغیچہ میں پانی چھوڑ کر اُسے تباہ مت کرنا (٩)بزدلی مت کرنا (١٠) غنیمت کے مال میں خیانت مت کرنا۔ (مصنف ابن ِاَبی شیبہ ٦/٤٨٧) نیز حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اَکرم ۖ لشکرروانہ کرتے وقت یہ تاکید فرماتے تھے کہ جو راہب اپنی کٹیوں (اَو ر آشرموں )میں عبادت میں مشغول ہیں اُن کو قتل مت کرنا۔ (مصنف ابن ِاَبی شیبہ ٦/٤٨٨) اِن تفصیلات سے معلوم ہوا کہ اِسلام کسی بھی مرحلہ میں بے قصوروں کے ساتھ زیادتی کو پسند نہیں کرتا