ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
اُنھیں تسلّی دی کہ حضرت! آپ کی نیت چونکہ نماز پڑھنے کی تھی اَور آپ میں اِس کی سکت نہ تھی اِس لیے آپ کو نماز کا ثواب مل گیا، اِنشاء اللہ آپ کا رب آپ کو محروم نہ کرے گا، آپ خاطر جمع رکھیں کہ آپ کو ثواب مل چکا۔ یہ سن کر اُن کے چہرے پر ایک چمک سی نمودار ہوئی اَور وہ قدرے مطمئن سے نظر آئے۔ حضرت رحمة اللہ علیہ کو دارُالعلوم کی عالمی شہرت کو مزید عالَمِیّت دینے، بالخصوص عالمِ عرب کے علماء ومفکرین سے رابطہ رکھنے سے بھی خاصی دلچسپی تھی۔ وہ جب تک صحت مند رہے راقم کو تاکیدکرتے رہے کہ عرب ممالک کے سفارت خانوں کو رمضان المبارک عیدالفطر وعید الاضحی اَور اُن ممالک کے قومی دِن کے موقع سے تہنیتی خطوط ضرور روانہ کیے جائیں، وہ دلچسپی کے ساتھ راقم سے خطوط تیار کرواتے اَور اُنھیں ٹائپ کرواکے روانہ کرنے کا حکم فرماتے۔ سعودی عرب، کویت اَور عرب اَمارات وغیرہ کے اہم علماء کو بھی اِس موقع سے مبارکبادی کے خطوط روانہ کرنے کا اہتمام کرتے۔ راقم کو ١٤٠٤ھ کے شعبان میں دارُالعلوم کی طرف سے بطورِ خاص سعودی عرب کے علماء اہلِ صحافت اَور پڑھے لکھے طبقے سے ملنے کے لیے سعودی عرب بھیجا۔ اِس سلسلے میں راقم سے جو کچھ بن پڑا اُس نے کیا۔ حضرت رحمة اللہ علیہ اُس کے وہاں قیام کے دوران فون اَور خطوط کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہے۔ راقم کے نام جب بھی عالمِ عربی سے کوئی دعوت نامہ کسی کانفرنس یا کسی تقریب میں شرکت کا ملتا، حضرت رحمة اللہ علیہ سے جب اُس کا تذکرہ کیاجاتا تو سفر کے تعلّق سے بہت دلچسپی لیتے اَور جو سہولت اُن کے بس میں ہوتی اُس کے فراہم کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ وہ چاہتے تھے کہ دارُالعلوم کے اَساتذہ بیرونِ ملک بالخصوص عالمِ عربی کاسفر موقع بہ موقع ضرور کریں تاکہ دارُالعلوم کا بیرونی ممالک سے رابطہ مضبوط ہو اَور وہاں کے لوگ اُس کے کام اَور نام سے اچھی طرح واقف ہوں۔ حضرتکی اِسی دلچسپی کے پیش ِنظر اُن کی شدید کبرسنی میں جب سعودی عرب کی طرف سے حج کا دعوت نامہ اُن کے نام آیا اَور رابطہ عالمِ اِسلامی کی طرف سے ایک سے زائد بار اُس کی بعض اہم کانفرنسوں میں اُس کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن ترکی کی طرف سے اُنھیں با اِصرار مدعو کیاگیا اَور اُنھوں نے اپنے ضعف اَور بڑھاپے کی وجہ سے عذر کرنا چاہا تو اِس راقم آثم نے اُن کی ہمت بڑھائی اَور بعجلت اَور بکثرت وہاں کے متعلقہ ذمے داروں سے رابطہ کرکے اُن کے سفر کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔(باقی صفحہ ٥٨)