ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
یَھُوْدِیَّةً اَوْ نَصْرَانِیَّةً لَمْ یَکُنْ بِھَا مُحْصِنًا وَ لَمْ یُرْجَمْ وَ ضُرِبَ مِأَةً ۔ وَھٰذَا قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَہَ وَ الْعَامَّةِ مِنْ فُقَھَائِنَا۔ (موطأ اِمام محمد ص ٣٠٤ - ٣٠٥ مطبوعہ نور محمد اَصح الکتب آرام باغ کراچی) '' محمد کہتے ہیں کہ ہم اُن سب روایات پر عمل کرتے ہیں کوئی بھی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے بشرطیکہ اُس نے اِس سے پہلے کسی مسلمان آزاد لڑکی سے شادی اَور مجامعت (بھی) کی ہو تو اِس صورت میں اگر وہ زناکرے گا تو اُس کی سزا رجم ہو گی اَور ایسا ہی شخص مُحصِن کہلاتا ہے پس اگر اُس نے شادی کے بعد اپنی بیوی سے مجامعت نہیں کی بس نکاح کیا ہے اُس کے پاس نہیں گیا یا اُس کے نکاح میں یہودی یا عیسائی باندی رہی ہے تو یہ اِس سے محصن نہیں ہو گا اَور اِسے رجم نہیں کیا جائے گا اَور اُسے (زنا کی سزاء میں) سو (کوڑے) مارے جائیں گے۔ اَور یہ اِمام اعظم اَبو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کا قول ہے اَور ہمارے فقہاء کا عامةً۔ '' ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اُس دور کے دُوسرے محدثین کی روایات بھی تحریر کر دی جائیں اَور اُن کا تعارف بھی کرا دیا جائے۔ سب سے پہلے ہم حافظ کبیر عبدالرزاق کا اَور اُن کے ساتھ دیگر محدثین کا تعارف کراتے ہیں۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں : عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ ھَمَّامِ بْنِ نَافِعِ الْحَافِظُ الْکَبِیْرُ اَبُوْبَکْرِ الْحِمْیَرِیُّ مَوْلَاھُمُ الصَّنْعَانِیُّ صَاحِبُ التَّصَانِیْفِ ۔ اِنہوں نے عبید اللہ بن عمر سے بھی تھوڑی روایات سنی ہیں،اِن کے شاگردوں میں اِمام اَحمد، اِسحاق، ابن مَعین، ذُھلی ، احمد بن صالح، الرمادی، اِسحاق بن اِبراہیم اَور اِن کے علاوہ بہت سے محدثین ہیں۔ (تذکرة الحفاظ ج١ ص٣٦٤ ) اِمام بخاری نے صحیح بخاری میں اِن سے بکثرت روایات لی ہیں اِمام بخاری نے اِن سے بالواسطہ روایت لی ہے (اِن کی وفات ٢١١ھ میں بعمر پچاسی سال ہوئی) یہ یمن کے رہنے والے ہیں اِن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ حدیث میں اِمام اعظم اَبو حنیفہ رحمة اللہ علیہ کے براہِ راست شاگرد ہیں۔ اِمام اعظم رحمة اللہ علیہ کے حالات میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں :