ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
اِمام الائمة الا مام محمد رحمة اللہ علیہ (١٣٢ھ - ١٨٩ھ) اِمام محمد اِمام اعظم کے شاگرد ہیں اَور اِمام مالک اَور اِمام اَبو یوسف کے بھی ،یہ بھی پہلے قاضی تھے پھر قاضی القضاة بھی رہے۔اِن کی معروف ترین کتاب'' مُؤَطَّا امام محمد'' کے نام سے عام ہے سب مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ اُنہوں نے اِس کتاب میں اَبْوَابُ الْحُدُوْدِ فِی الزِِّنَا کے عنوان کے تحت بَابُ الرَّجْمِ میں اِمام مالک کی گزشتہ تین روایات دی ہیں۔ جس زمانہ میں اِمام محمد نے اِمام مالک سے پڑھا تھا اُس وقت اِمام مالک خود اپنی زبان سے حدیثیں بیان فرمایا کرتے تھے ،اِمام محمد نے اُن کی زبانِ مبارک سے سات سو سے زیادہ حدثیں سنی ہیں، بعد میں یہ دور آیا کہ آپ کے شاگردوں سے لوگ حدیثیں یاد کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سُنا دیا کرتے تھے۔ اِمام شافعی اُن کے پاس اُس دور میں حاضر ہوئے تھے اُن کی روایات یاد کر کے اُن کو سنائی تھیں۔ اِمام محمد نے مذکورہ بالا موطأ نامی کتاب میں جو موطأ اِمام محمد کہلاتی ہے اِمام مالک کی بہت روایات دی ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے اَبْوَابُ الْحُدُوْدِ فِی الزِِّنَا کے عنوان کے تحت بَابُ الرَّجْمِ میں پہلے وہ روایت دی ہے جو موطا اِمام مالک کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس عن عمر بن الخطاب گزری ہے کہ اَلرَّجْمُ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی حَقّ عَلٰی مَنْ زَنٰی الخ ۔ پھر روایت سعید بن المسیب دی ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سفر حج اَور اُس سے واپسی پر مدینہ منورہ میں خطبہ کا ذکر ہے پھر حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت تحریر فرمائی ہے جس میں یہودیوں کا رسول اللہ ۖ کے پاس حاضر ہونا اَور حضرت عبداللہ بن سلام کا عبارتِ تو راة کو صحیح پڑھوانے کا واقعہ گزرا ہے پھر قانون تحریر فرماتے ہیں : قَالَ مُحَمَّد وَ بِھٰذَا کُلِّہ نَأْخُذُ اَیُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُّسْلِمٍ زَنٰی بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذٰلِکَ حُرَّةٍ مُّسْلِمَةٍ وَجَامَعَھَا فَفِیْہِ الرَّجْمُ وَ ھٰذَا ھُوَ الْمُحْصنُ فَاِنْ کَانَ لَمْ یُجَامِعْھَا اِنَّمَا تَزَّوَجَھَا وَلَمْ یَدْخُلْ بِھَا اَوْ کَانَتْ تَحْتَہ اَمَة