ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2011 |
اكستان |
|
تَفَقَّہَ بِہ زُفَرُ بْنُ الْھُذَیْلِ وَدَاودُ الطَّائِیُّ وَالْقَاضِیْ اَبُوْیُوْسُفَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ وَاَسَدُ بْنُ عَمْرٍ وَالْحَسَنُ بْنُ زَیَادٍ اللُّؤْلُؤِیُّ وَنُوْحُ الْجَامِعِ وَاَبُوْمُطِیْعِ الْبَلْخِیْ وَعِدَة وَکَانَ قَدْ تَفَقَّہَ بِحَمَّادِ ابْنِ اَبِیْ سُلَیْمَانَ وَغَیْرِہ وَحَدَّثَ عَنْہُ وَکِیْع وَیَزِیْدُ بْنُ ھَارُوْنَ وَسَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ وَاَبُوْعَاصِمٍ وَ عَبْدُالرَّزَّاقِ وَعُبَیْدُ اللّٰہِ بْنُ مُوْسٰی وَاَبُوْنُعَیْمٍ وَاَبُوْعَبْدِالرَّحْمٰنِ الْمُقْرِیُ وَ بَشَر کَثِیْر ۔ (تذکرة الحفاظ ج ١ ص ١٦٨) مذکورہ بالا عبارت تذکرة الحفاظ کی ہے اِس میں اِمام اعظم رحمة اللہ علیہ کے حالات میں اُن کے دو قسم کے شاگردوں کے کچھ نام دیے ہیں۔ فقہی مہارت حاصل کرنے والے حضرات میں زفر ،دائودِ طائی ، اِمام اَبویوسف، اِمام محمد ، اَسدبن عمرو ،حسن بن زیاد، نوح ، ابو مطیع بلخی اَور دُوسرے متعدد حضرات( ہیں)۔خود اُنہوںنے حماد بن اَبی سلیمان وغیرہ سے فقہ حاصل کی تھی۔ اِن سے علم حدیث حاصل کرنے والے وکیع ، یزید بن ہارون، سعد بن الصلت ، اَبو عاصم، عبدالرزاق ، عبید اللہ بن موسی، اَبو نعیم اَور اَبو عبد الرحمن المقری اَور بہت سے محدثین ہیں۔ حافظ ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں اَبو داود طیالسی کا ذکر اِن اِلفاظ سے کیا ہے : اَبُوْدَاودَ الطَّیَالِسِیُّ اَلْحَافِظُ الْکَبِیْرُسُلَیْمَانُ بْنُ دَاودَ بْنِ الْجَارُوْدِ الْفَارْسِیُّ الْاَصْلِ مَوْلٰی آلِ الزُّبَیْرِ الْبَصَرِیُّ اَحَدُ الْاَعْلَامِ الْحُفَّاظِ ۔( تذکرہ ج ١ ص٣٥١ ) یہ بصرہ کے رہنے والے ہیں اِن کے شاگردوں میں اِنہوں نے اِمام احمد ، فلاس،بندار، ابن الفرات اَور عباس الدوری کے نام گنائے ہیں۔ پھر کہا ہے وَخَلَا ئِقُ یعنی بہت زیادہ لوگوں نے اِن سے حدیث لی ہے۔ اِن کے تحریر کردہ حساب سے اِمام اَبو داود کی پیدائش ١٢٤ھ بنتی ہے لیکن دُوسرے حضرات اِن کی پیدائش ١٣٣ھ بتلاتے ہیں اَور وفات کے بارے میں سب کا اِتفاق ہے کہ ٢٠٤ھ میں ہوئی ہے۔ دُوسرے حضرات نے علی بن المدینی ، اَبوبکر ابن اَبی شیبة اَور عثمان بن اَبی شیبة کو بھی اِن کے شاگردوں کی فہرست میں لکھا ہے جو صحیح ہے۔