ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
اُس نے میری سفید ڈاڑھی اور عمر کے فرق کا لحاظ کرتے ہوئے وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی۔تاہم اُس نے میرے مضمون میں دیے گئے موصوف کی ویب سائٹ کے پتہ پر زید حامد سے رابطہ کیا، تو آگے سے اُس نے بھی ٹھیک وہی تقریر جھاڑی کہ یہ میرے خلاف خواہ مخواہ کا غلط پروپیگنڈا ہے، اور مولوی مجھ سے خواہ مخواہ بُغض رکھتے ہیں یا مجھ سے پرخاش رکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ، ورنہ میرا کسی یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں رہا بلکہ میں ایسے کسی شخص کو نہیں جانتا۔ بہرحال ویب سائٹ پر اُن کی بات چیت اور چیٹنگ جاری تھی کہ میرے رفیق کار مولانا محمد اعجاز صاحب نے انہیں ''یوسف کذاب'' نامی کتاب پیش کردی، اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے عزیز مولوی محمد یوسف اسکندر صاحب کو جنہوں نے نہایت غورو خوض سے اُس کا مطالعہ کیا تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اُن پر حقیقت حال منکشف ہوگئی۔ چنانچہ اُنہوں نے حکمت و دانش مندی اور سلیقہ سے زید حامد کے ساتھ براہِ راست سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ: اگر تمہارا یوسف کذاب سے کوئی تعلق نہیں تھا تو اِس کتاب میں اور یوسف کذاب کے مقدمہ میں تمہارا نام کیوں ہے؟ اور تم نے اُس کے مقدمہ کی پیروی کیوں کی تھی؟ اور تم نے اُس مقدمہ کے فیصلہ کے بعد روزنامہ ڈان کراچی میں اُس فیصلہ کو اِنصاف کے قتل سے کیوں تعبیر کیا ؟ اور مدعی نبوت یوسف کذاب کو ایک مہربان اور اِسلام کے معزز صوفی اور اسکالر کے طور پر کیوں پیش کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ الغرض مسلسل سوالوں کے بعد اُس نے بہرحال اِتنا اعتراف کرلیا کہ جی ہاں میرا اُس مقدمہ میں کسی حد تک کردار رہا ہے۔ چنانچہ اُس کے اِس اعتراف کے بعد مولوی محمد یوسف اسکندر صاحب کو زید حامد کی حقیقت سمجھ میں آگئی۔ خیر یہ تو ایک سمجھ دار عالم دین کا معاملہ تھا، اِس کے علاوہ اَور بھی بہت سے دیندار حضرات کو میری اِس تحریر پر اعتراض تھا اور ہے، چنانچہ بہت سے مخلصین نے یہ کہہ کر اِس بحث کو ختم کردیا کہ سعید احمد جلال پوری کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا پھر اُس کو صحیح معلومات نہیں دی گئیں۔ اِسی طرح جناب حافظ توفیق حسین شاہ صاحب نے روزنامہ جنگ کراچی میں حامد میر کے جواب میں راقم الحروف کے مضمون کی اشاعت پر اپنے میسیج میںلکھا :