ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
دُنیا بھر میں سنی جاتی ہے اور دُنیا اُس کے علم و فہم اور مبنی برصداقت تجزیوں اور یہود و امریکا کے خلاف بے لاگ تبصروں پر خراج اور تحسین کے ڈونگرے برساتی ہے، آپ نے بیک جنبشِ قلم اُس کو مخالفین کے کیمپ اور پلڑے میں ڈال کر کوئی اچھا کام نہیں کیا۔مولانا! آپ خود ہی اِس کا فیصلہ فرمائیں کہ جو شخص اِسلام دُشمن ہوگا، وہ اِسلام اور مسلمانوں کے حق میں کیونکر بولے گا؟ اور جو امریکا اور یہودیوں کا ایجنٹ ہوگا وہ یہودیوں اَور امریکا کے خلاف سرِ عام لب کُشائی کیوں کرے گا؟'' میں نے غور سے اُن کی تقریر سنی اور عرض کیا : عزیز من! کسی آدمی کا اچھا مقرر ہونا، عمدہ تجزیہ نگار ہونا، وسیع معلومات سے متصف ہونا، کسی کی چرب زبانی اور طاقت لسانی ،اُس کے ایمان دار ہونے کی علامت اور نشانی نہیں ہے کیونکہ بہت سے باطل پرست ایسے گزرے ہیں جو اِن کمالات سے متصف ہونے کے باوجود نہ صرف یہ کہ مسلمان نہیں تھے بلکہ وہ اپنے اِن کمالات و اَوصاف کو اپنے کفر اِلحاد اور باطل نظریات کی اشاعت و تبلیغ اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں، صرف ایک صدی پیشتر متحدہ ہندوستان کے غلیظ فتنہ، فتنہ قادیانیت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کی ابتدائی زندگی کا جائزہ لیجیے تو اَندازہ ہوگا کہ شروع شروع میں اُس نے بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ اِسلام کا ترجمان اور آریوں اور عیسائیوں کے خلاف مناظر باور کرایا تھا، مگر یہ سب کچھ ایک خاص وقت اور ایک خاص مقصد کے لیے تھا ۔وہ یہ کہ کسی طرح مسلمانوں میں اُس کا نام اور مقام پیدا ہوجائے اور بحیثیت ِمسلمان اُس کا تعارف ہوجائے، مسلمان اُس کے قریب آجائیں اور مسلمانوں کا اُس پر اعتماد بیٹھ جائے، چنانچہ جب اُس نے محسوس کیا کہ اِن مناظروں اور مباحثوں سے اُس کے مقاصد حاصل ہوگئے ہیں، تو اُس نے اپنے باطل اَفکار و نظریات کا اظہار کرکے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کردیے، اُس کے بعد اُس نے جو گل کھلائے، وہ کسی باخبر اِنسان اور ادنیٰ مسلمان سے مخفی اور پوشیدہ نہیں۔ ٹھیک اِسی طرح زید حامد بھی ایک خاص حکمت ِعملی کے تحت یہ سب کچھ کررہا ہے، لہٰذا جس دن اُس کو اَندازہ ہوجائے گا کہ اُس کا مقصد پورا ہوگیا ہے یا مسلمانوں میں اُس کا اعتماد، مقام اَور تعارف ہوگیا ہے، یہ بھی مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اپنے پوشیدہ اَفکار و عقائد کا اظہار و اعلان کردے گا۔ میرے خیال میں میری اِس تقریر سے عزیز مولوی محمد یوسف سلّمہ کا ذہن تو صاف نہیں ہوا، البتہ