ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
مولانا ابوالکلام آزاد رحمة اللہ علیہ کے الفاظ میںکانگریس کاعذر یہ تھا : ''حالات نے ہر ایک دماغ کو مجبور کر دیا ہے کہ جو حل بھی موجودہ اُلجھاؤ کو ختم کر سکتا ہواُس کوتسلیم کرلے ۔کانگریس کے سامنے یہ سوال نہیں تھا کہ کونسا منصوبہ منظور کیا جائے بلکہ سوال یہ تھا کہ گومگواَور غیراطمینانی کی موجودہ تباہ کن حالت باقی رہے یا سب سے پہلی فرصت میں اِس کو ختم کر دیا جائے ۔ کانگریس متحدہ ہندوستان کے نظریہ سے جدا نہیں ہوئی لیکن وہ حق ِخوداِرادیت کو بھی تسلیم کر چکی تھی کہ جو علاقے یونین میں شامل نہ ہونا چاہیں اُنہیں مجبور کرنے کے خلاف ہے۔'' یہ دماغوںکی مجبوری کیا تھی ، یہ وہی فرقہ واریت تھی جودونوںپلیٹ فارموں پررقص کررہی تھی جس کا افسوسناک اَثریہ تھا کہ ٣ جون ١٩٤٧ء کوتقسیمِ ہند کی اسکیم کا اعلان ہوا اور ١٦ جون تک کانگریس اَور مسلم لیگ (ہندوستان کی دونوںبڑی جماعتوں نے ) اِس کے حق میں منظوری صادر کر دی۔ (الجمعیة کا مجاہد ِملّت نمبر ص٥٨ تا ص ٦١ خصوصی شمارہ مطبوعہ دہلی) آپ نے یہاںتک پڑھ کر یہ معلوم کر لیا ہو گا کہ جمعیّت علمائِ ہند کا اپنا الگ فارمولا اور موقف تھا جیسے کانگرین اور مسلم لیگ کے جدا جدا فارمولے تھے ۔مسلم لیگ اور جمعیة کے فارمولوں کی بنیاد یہ تھی کہ مسلمانوںکے لیے کونسا فارمو لا بہتر رہے گا اوریہ حضرات اپیلیں کرتے رہے ہیں کہ جمع ہوکربیٹھیں اورہر فارمولے کے روشن و تاریک پہلوپر غور کرکے دومیںسے ایک پراِتفاق کرلیںاِس میں کانگریس کی ہمنوائی کو کوئی دخل نہ تھا ۔ یہ بات بہت ہی غلط مشہور کی جارہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ایسی بد گمانیوںسے پرہیز کرنا اور تائب ہونا ضروری ہے ۔ علّامہ شبیر احمد عثمانی اَور پاکستان : علّامہ شبیر احمدعثمانی کے ذہن میںپاکستان کا یہ خاکہ تھا کہ پورا آسام ،پورا بنگال ،پورا پنجاب اور کشمیر کے کافی حصہ پر مشتمل ایک مضبوط مملکت ہو گی جہاںاسلامی نظام نافذ ہوگا۔ اُن کے خیال کے مطابق پاکستان ہندوستان کا نقشہ یہ ہوگا۔