ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
کی جو چیز بھی ہے وہ کھائی جاسکتی ہے اَور ایسے بھی صراحةً بعض حضرات سے منقول ہے کہ وہ کہتے ہیں لَوْ اَنَّ اَھْلِی اَکَلُوا الضَّفَادِعَ لَاَطْعَمْتُہُمْ ١ اگر میرے گھر والے مینڈک کھائیں تو میں اُنہیں کھلائوں گا۔ یہ نہیں معلوم چین والے کیا کرتے ہیں کھاتے ہیں یا نہیں کھاتے البتہ وہ بہت چیزیں کھاجاتے ہیں۔ کچھ بدھ مذہب والے بھی اَورکچھ لامذہب ہیں وہ سانپ بھی کھالیتے ہیں اَور چیزیں بھی پکالیتے ہیںقبائل والے خصوصًا (امریکہ اَور دیگر کفار قبائل)۔ کہیں پوجا پاٹ کہیں پکا کر کھا جانا : کہیں تو سانپ کی تعظیم کی جاتی ہے اِتنی کہ اُسے مندروں میں رکھتے ہیں اَور عبادت میں بھی شامل کرلیتے ہیں پوجا پاٹ بھی اُس کی کرلیتے ہیں اَور کہیں یہ حال ہے کہ اُس کو کھاجاتے ہیں۔ کمانڈوز کی تربیت : تو ویسے جتنے یہ گوریلے(کمانڈوز) ہوتے ہیں اِن کو جڑی بوٹیوں کی بھی شناخت کرائی جاتی ہے کہ اگر تمہیں جنگل میں رہنا پڑے تو یہ بوٹی ایسی ہے جو ہر جگہ مل جائے گی وہ کھالیا کرو درختوں کی شناخت ہوتی ہے کہ یہ ہے د رخت اِس کے کھالیا کرو پتے وغیرہ اُس میں ایسے درخت بھی ہیں جو جراثیم کُش ہیں جراثیم پیدا نہیں کرتے بلکہ جراثیم کُش ہیں جیسے یہ سفیدہ وغیرہ ہوتا ہے یہ جراثیم کُش ہے نزلہ زکام انفلوئنزہ وغیرہ میں بہت مفید ہے مکھیوں مچھروں کو کم کرتا ہے اِس کی ہوا سے ہی فرق پڑجاتا ہے اَور خوشبو دار چیز ہے ۔تو اِسی طرح سوہاجنہ اَور کیا اَور کیا، یہ چیزیں سب بتائی جاتی ہیں تو گھاس بتادی گئی جڑی بوٹیاں، پودے بتادیے گئے درخت بتادیے گئے ،چڑھنا اُترنا چُھپنا یہ سکھادیا گیا ،ساتھ ہی ساتھ اُنہیں جانوروں کی بھی پہچان اَور چیزیں بھی بتائی جاتی ہیں کہ سانپ کا یہ حصّہ کاٹ دیں زہر والا اَور بالکل پیچھے والا حصہ کاٹ لیں کیونکہ اُس میں اُس کی آنتیں وغیرہ ہیں تو بیچ کا حصہ جو ہوتا ہے اِس میں زہر نہیں ہوتا یہ پکاکر کھاسکتے ہیں تو یہ ہمارے یہاں بھی ہے یہاں یعنی پاکستان میں بھی جو تربیت دی جاتی ہوگی گوریلوں کو اُن میں یہ سمجھایا جاتا ہے ۔ ایک گوریلا تھا یہاں جب بھٹو کے زمانہ میں بلوچستان پر اُنہوں نے(جنرل) ٹکّے خان کو لگایا تھا اَور یہ لڑائی ایک طرح جاری تھی جب قومی اتحاد کی تحریک چل پڑی اُس کے بعد لیکن اُس سے پہلے ہی پہلے وہ ١ بخاری شریف ج٢ ص ٨٢٦