ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
ۖ نے دو قبریں دیکھیں جن کے لوگوں کو عذاب ہورہا تھا تو اُن پر وہ درخت کی چھڑی لگادی جو سبز تھی اَور یہ فرمایا جب تک یہ خشک نہ ہوں تو اِن کے اُوپر سے عذاب شاید ہٹ جائے۔ بنی کے یا خدا کے کلام میں''شاید'' کا مطلب شاید نہیں ہوتا بلکہ یقینی ہوتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جب تک وہ ہری ہیں اُس وقت تک عذاب ہٹ جائے گا ۔ قبر پر سے گھاس نہ اُکھاڑی جائے : تو قبر پر گھا س اگراُگی ہوئی ہو تو حنفی حضرات کا ہمارا مسلک یہ ہے کہ وہ گھاس نہ اُکھاڑے قبر کے اُوپر سے کیونکہ وہ ترگھاس ہے اَور تسبیح کرتی ہے پودا لگا دیا جائے قبر پر وہ بھی ٹھیک ہے وہ بھی تسبیح کرے گا ہاں یہ جوپھول ڈال دیتے ہیں یہ پھول ڈالنا جو ہے یہ شاید اگر تعظیمًا ہے تو پھر تو بے ثبوت اَور اگر اِس نیت سے ہے کہ جب تک یہ ہرے ہیں یہ بھی تسبیح کریں گے جب تک اِن میں جان ہے یہ تسبیح کریں گے یا یہ پاک جگہ ہے صاف جگہ ہے یہاں پاک صاف رکھی جائے چیز خوشبو والی چیز رکھی جائے اِس لیے کوئی رکھتا ہے تو بھی جواز ہوجائے گا ورنہ تویہ سمجھئے دُنیا کا رواج ہے ،یہ نہیں معلوم یہ چلا کہاں سے ہے یہ ماقبل ِ تاریخ سے ہے یا پھر اِسلام سے لیا گیا ہے، اِسلام سے اگر لیا گیا ہے تو اِس کی اَصل (یا توجیہہ)یہ ہے کہ اَصل چیز تو یہ ہے کہ قبر پر کوئی پودا ہو یا گھاس ہو اُس گھاس کو اُکھاڑنا مکروہ ہے کیونکہ اِس سے صاحب ِ قبر کو نفع پہنچ رہا ہے وہ نہیں اُکھاڑی جانی چاہیے کاٹی جاسکتی ہے چھانٹی جا سکتی ہے لیکن اُکھاڑنی نہیں چاہیے اُس سے لے کر پھولوں پر آگئے۔ اَب پھول جو ہیں وہ ایسے ہو گئے ہیں کہ بُت پربھی چڑھائے جاتے ہیں اَور اگرکوئی مر چکا ہے جل چکا ہے اُس کی راکھ رَکھی ہے کہیں جیسے گاندھی کی اُس پر بھی چڑھائے جاتے ہیں ۔ مُلکی ذمہ داروں کا حال : یہ'' عزیز احمد'' جو تھے یہ گئے وہاں پھول بھی چڑھائے اَور گاندھی کے لیے فاتحہ بھی پڑھ دی اِنہوں نے کیونکہ اِنہیں یہ ہی نہیں پتا ہے، ہیں تو بہت بڑے دعویدار اِسلام کے مگر بالکل مسائل سے ناواقف ، نام جانتے ہیں اِسلام کا اَور بس ۔اِسلام میں نماز زکوة روزہ حج بس اِن تین چار چیزوں کو سمجھتے ہیں کہ کُل اِسلام یہی ہے اَور اِس کے سوا جو اَور مسائل ہیں جو زندگی کے ہر ہر جز میں داخل ہوا ہوا ہے اِسلام اُس کی اُنہیں خبر ہی نہیں پڑھا ہی نہیں اُنہوں نے دین وہ اِن چیزوں کو سمجھتے ہیں اَور اِس سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے تو مسائل کا