ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
غائب غیر مفقود کی زوجہ کا حکم : جو شخص غائب ہو جائے اور پتہ اُس کا معلوم ہو لیکن نہ وہ خود آتا ہے نہ بیوی کو اپنے پاس بُلاتا ہے نہ اُس کے خرچے وغیرہ کا اِنتظام کرتا ہے اور نہ طلاق دیتا ہے ۔اِس شخص کی زوجہ کے لیے جو صورت بالاتفاق صحیح ہے وہ یہ ہے کہ اُس کے خاوند کو خلع پر راضی کیا جائے ۔اگر وہ اِس پر راضی نہ ہو تو پھر اگر یہ عورت صبر کرکے اپنا زمانہ عفت میں گزار سکے تو بہتر ورنہ جب گزارہ اَورنان نفقہ کی کوئی صورت ممکن نہ ہوتو سخت مجبوری میں یہ گنجائش ہے کہ وہ پہلے قاضی کے پاس مقدمہ پیش کرکے گواہوں سے اُس غائب کے ساتھ اپنا نکاح ہونا ثابت کرے پھر یہ ثابت کرے کہ وہ مجھ کوخرچہ دے کر نہیں گیا اور نہ وہاں سے میرے لیے خرچہ بھیجا نہ یہاں کوئی انتظام کیا اور نہ میں نے خرچہ معاف کیا اور خرچہ سے متعلق باتوں پر حلف بھی اُٹھائے ۔اِس کے بعد اگر کوئی عزیز یا اجنبی اِس کے خرچہ کی کفالت کرے تو خیر ورنہ قاضی اِس کے پاس دو ثقہ آدمیوں کے ذریعہ حکم بھیجے کہ یا تو خود حاضر ہو کر اپنی بیوی کے حقوق ادا کر و یا اُس کو بلالو یا وہیں سے کوئی اِنتظام کرو ورنہ اُس کو طلاق دیدو۔اور اگر تم نے اِن سے کوئی بات نہ کی تو پھر ہم خود تم دونوں میں تفریق کر دیںگے ۔ اس پر اگر خاوند کوئی صورت قبول نہ کرے تو قاضی ایک مہینے مزیداِنتظار کا حکم دے ۔اِس مدت میں بھی اگر اُس کی شکایت رفع نہ ہوئی تو قاضی اِس عورت کواُس غائب کی زوجیت سے الگ کر دے۔ اگر غائب کسی دُور دراز ملک میں ہو کہ جہاں آدمی بھیجنے کا کوئی انتظام نہ ہو سکتا ہو تو بغیر آدمی بھیجے ہوئے قاضی واقعہ کی تحقیق کرنے کے بعد تفریق کا حکم کر دے ، یہ تفریق طلاق رجعی شمار ہو گی۔ تنبیہہ : اگر غائب تفریق کیے جانے کے بعد واپس آ جائے تو اِس کی دو صورتیں ہیں : (١) ایک یہ کہ عدّت کے اندر اندر واپس آ جائے اور باقاعدہ خرچ وغیرہ دینے پر آمادہ ہو تو اِس صورت میںاِس کو رجوع کرنے کا حق ہے ۔ (٢) دُوسری صورت یہ ہے کہ عدّت ختم ہونے کے بعد آیا ہو، اِس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اُس نے عورت کے دعوی کے خلاف کوئی بات ثابت کر دی مثلاً یہ کہ میں نے اِس کو پیشگی خرچہ دے دیا تھا تو اِس کو ہر حال میں بیوی مل جائے گی اور اگر خاوند نے عورت کے دعوی کے خلاف کوئی ثابت نہ کی تو عورت اُس کو نہ ملے گی کیونکہ عدّت کے بعد رجعت کا حق نہیں رہتا ۔