ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
اُنہیں پتا ہی نہیں۔ یہاں ایک بار سرفروز خان نون تقریر کر رہے تھے اُنہوں نے کہا پڑھو دُرود شریف لَا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ تو پڑھوارہے ہیں دُرود شریف اَور پڑھ رہے ہیں کلمہ اَور کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھتے لَا اِلَہَ اِلَّا اللّٰہُ اِلَّا اللّٰہُ کے بجائے اِلِّیْ کہتے ہیں تو غلط ہوجاتا ہے کلمہ ،یہ تبلیغ والے کلمہ سنا سنا کے صحیح کراتے ہیں پہلے اپنا سناتے ہیں پھر دُوسرے کا سنتے ہیں آرام آرام سے صحیح کرتے پھر تے ہیں، یہ بچارے کلمہ صحیح کراتے ہیں نمازیں سکھاتے ہیں تومسلمانوں کی حالت جو اَب ہے وہ یہ ہے کہ بہت کم چیزیں اُنہیں دین کی آتی ہیں باقی دین کے احکام جو زندگی بھر کے لیے ہیں گھر جاؤ تو کیسے باہر آؤ تو کیسے گھر میں جاؤ تو سلام کرو وغیرہ وغیرہ ایک چیز تو نہیں ہے وہ تو ساری زندگی کو دن اِور رات کو محیط ہے آداب ہیں اُس میں اَحکام ہیں اُس میں تمام چیزیں آتی ہیں۔ تو رسول اللہ ۖ نے جو مینڈک سے منع فرمایا ہے تو اِس کی وجہیں دو ہوگئیں :ایک وہ جو ہمارے نزدیک ہے کہ ناپاک ہے دُوسری وہ جو کہتے ہیں کہ حلال نہیں ہے ناپاک ہو یا نہ ہو حلال نہیں ہے اَوریہ بھی ہے کہ وہ تسبیح کرنے والی مخلوق ہے اَور ایسی مخلوق جو تسبیح کرتی ہو اُس کو نہ مارو، گویا یہ بتلایا گیا ہمارے نزدیک اِسے دَوا میں نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ یہ نقصان دہ ہے یا اِس کی مضرت ہے یا یہ کہ یہ کھا نا دُرست نہیں ہے۔ قلب ِماہیت سے حکم بدل جاتا ہے : تو ایسی چیزیں جو جانوروں کے اجزاء ہیں جیسے'' پِتَّہ'' وغیرہ بہت سی دواؤں میں اس کا استعمال آتا ہے، تو اِس کا طریقہ یہ ہے کہ اُسے جلالیا جائے اَورجلا کر اُس کی راکھ استعمال کی جائے جلنے کے بعد پھر یہ ہے کہ ختم ہوگیا وہ حکم کیونکہ وہ بات ہی نہیں رہی وہ ماہیت ہی نہیں رہی قلب ِماہیت ہوگیا ختم ہوگئی وہ چیز اَب راکھ رہ گئی، اِس کی مثال تو ایسے ہیں جیسے آپ اُپلے جلاتے ہیں جب اُپلے جل جاتے ہیں تو راکھ ہوگئی راکھ ہونے کے بعد پھر اُن میں نہ بدبو رہتی ہے نہ کچھ رہتا ہے نہ ناپاکی رہتی ہے اَور راکھ اُڑ بھی جائے اَور وہ ہنڈیا میں گِر بھی جائے ہوا سے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہنڈیا ناپاک ہوگئی کیونکہ وہ جل چکی ہے اَب وہ گوبر نہیں ہے بلکہ راکھ ہے، تو جب کوئی بھی چیز جلا دی جائے تو اُس کے بعد اُس کا حکم پھرناپاکی کا نہیں رہتاناپاکی ختم ہو گئی اُس سے۔