ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
ہ غیر حاضر ہوتے تھے تو اپنی تنخواہ میں سے غیر حاضری کے دنوں کی تنخواہ خود دفتر محاسبی دارالعلوم کو واپس کر دیتے تھے یہ سب کچھ آپ کو دارالعلوم کے ریکارڈ میں مل جائے گا وہاں خط لکھ کر دریافت کرلیں ۔ ایک مسلمان جو قرآن پاک پڑھتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ رزق رسانی خدا کا کام ہے بارہواں پارہ اِسی آیت سے شروع ہواہے وَمَامِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا اَور اَٹھائیسویں پارہ میں خدا کا وعدہ ہے وَمَن یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہ جو خدا پر بھروسہ کرے خدا اُس کے لیے کافی ہے پھر ایسا سوال اُٹھانا ایک کامل مسلمان سے تو بعید ہے۔ تقسیم ہند کے بعد : آخر میں یہ بھی عرض کردُوں کہ تقسیمِ ہند کے بعد (جمعیت علماء کے ) اِن حضرات نے مشرقی پنجاب میں لاکھوں مسلمان برآمد کیے جو وہیں رہ گئے تھے۔ اُنہوں نے بظاہر ترکِ اسلام کرکے ہندوانہ وضع اختیار کر لی تھی اُن کو سہارا دیا حوصلے بلند کیے اُن کے لیے شبینہ مدارس قائم کیے ۔ اِسی طرح وہاں جا بجا تبلیغی جماعت پہنچی اور یہ کام سر ہتھیلی پر رکھ کر انجام دیا جَزَا ھُمُ اللّٰہُ خَیْرَ الْجَزَائِ ۔ حضرت مدنی نے حضرت شاہ عبدالقادر رائپوری رحمة اللہ علیہما کو بھی اُس زمانہ میں اپنے وطن سرگودھا آنے سے روکے رکھا ۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمة اللہ علیہ بھی یوپی پنجاب سرحد پر واقع شہر سہارنپور ہی میںقیام فرما رہے ،یہ حضرات پورے مسلمانان ِہندکوآباد رکھنے کا ذریعہ بنے جو بلاشبہ بڑا جہاد ہے ۔دُنیائے اِسلام کے نامور عالم مولانا السیّد ابوالحسن علی ندوی نے اِن ہی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے میںاُن کی اس تحریر پر مضمون ختم کرتا ہوں ،وہ تحریر فرماتے ہیں : ایک بہت بڑا کارنامہ مولانا کا ایک بڑا کارنامہ جس کی اہمیت کا احساس بہت کم لوگوں کو ہے ،یہ ہے کہ ١٩٤٧ء کے ہنگامہ میں اَور اُس کے بعد ہندوستان میں مسلمان کی بقا ء و قیام کا ایک بڑا ظاہری سبب مولانا ہی کی ہستی تھی ۔ یہ وہ وقت تھا جبکہ بڑے بڑے کوہ استقامت جنبش میں آگئے۔ سب یہی سمجھتے تھے کہ اَب ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں مسلمانوں کی تاریخ میں دو ہی چار دور ایسے گزرے ہیں جب مسلمان اور اِسلام کی بقاء کا سوال