ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( مفقود اور غائب کی زوجہ کا حکم ) مفقود یعنی لاپتہ شخص کی زوجہ کا حکم : جس عورت کا شوہر ایسا لاپتہ ہوگیا ہو کہ اُس کا کچھ اَتہ پتہ نہ ہو اَور عورت کے لیے خرچہ کا اِنتظام نہ ہو سکے یا معصیت کے خوف کی وجہ سے اُس کا بیٹھنا مناسب نہ سمجھا جائے تو اُس وقت عورت قاضی کی عدالت میں مرافعہ کرے اور بذریعہ شہادتِ شرعیہ یہ ثابت کرے کہ میرا فلاں شخص سے نکاح ہوا تھا ۔ اگر نکاح کے عینی گواہ موجود نہ ہوں تواِس معاملہ میں شہرت کی بناء پر بھی شہادت کافی ہے ۔ اِس کے بعد گواہوں سے اِس کا مفقود ولا پتہ ہونا ثابت کرے ۔بعداَزاں قاضی خود بھی مفقود کی تفتیش و تلاش کرے اَور جب پتہ ملنے سے مایوس ہوجائے توعورت کو چار سال تک مزید اِنتظارکا حکم کرے ۔ پھر اگر اِن چار سالوں میں بھی مفقود کا پتہ نہ چلے تو اِس مدت کے ختم ہونے پر مفقودکو مردہ تصور کیا جائے گا۔اِس کے بعد عدّتِ وفات یعنی چار ماہ دس دن کی عدّت گزار کر عورت کو دُوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔ تتبیہات : (١) بہتر ہے کہ چار سال گزرنے پر قاضی کی عدالت سے حکم بالموت بھی حاصل کر لیا جائے۔ (٢) قاضی جو چار سال کی مدّت مقرر کرے گا اُس کی ابتداء اُس وقت سے لی جائے گی جب خود وہ تفتیش کرکے پتہ چلنے سے مایوس ہو جائے۔قاضی کی عدالت میں پہنچنے سے پہلے خواہ کتنی ہی مدت گزری ہو اُس کا کچھ اعتبارنہ ہو گا۔ (٣) اگر چار سال کی مزید مدت گزارنے میں عورت کے لیے فتنہ واِبتلاء ہو اور وہ پہلے ہی ایک عرصہ دراز مفقود کے انتظار میںگزار چکی ہو تو بجائے چار سال کے ایک سال کے بعد بھی تفریق جائز ہے ۔ (٤) اگر دُوسرے شوہر سے نکاح کے بعد پہلا شوہر واپس آ جائے تو دُوسرا نکاح باطل ہو جائے گا اور عورت پہلے شوہر کو واپس ملے گی۔ البتہ اگر خلوت صحیحہ ہو چکی ہوتوعورت کودُوسرے شوہرسے پورا مہر بھی ملے گا اور اُس کی عدّت بھی گزارنی ہو گی۔