ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
دو قسمیں ہیں ایک اصحابِ اِرشاد اور دُوسرے اصحابِ تکوین ، اصحابِ ارشاد جتنے بھی ہوں قطب الارشاد تک سب کے سب ظاہر شریعت پر ہی چلنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اُن پر جذب کا قطعاً بھی اثرنہیں ہوتا وہ اصحابِ صحو ہوتے ہیں متیَقظ اور بیدار مغز اور یہ فرق قرآنِ کریم میں حضرت موسیٰ اور حصرت خضر علیہماالسلام کے واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے ۔( پندرہویں پارہ کا آخری اور سولہویں پارہ کا پہلا رکوع دیکھ لیں ) (٢) سیٹھی صاحب کو حضرت مدنی رحمةاللہ علیہ خالص سیاسی شخصیّت نظر آرہے ہیں ۔ سیاسی ہونا بھی عیب نہیں ہے بنی اسرائیل کی سیاست کے فرائض انبیاء کرام انجام دیا کرتے تھے کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَائُ ۔ (بخاری ص ٤٩١ ج١ ) سیٹھی صاحب نے لکھا ہے : ''لیکن جہاں تک انگریزوں کے ہندوستان چھوڑ دینے کے بعد کے حالات میں مسلمانوں کی پوزیشن کا تعلق تھا وہ اِس مسئلہ کو ملتوی رکھنا چاہتے تھے کہ آزادی کے بعد ہندوؤں سے معاملہ کر لیا جائے گا ۔'' سیٹھی صاحب جیسے اور بھی لوگ ہو سکتے ہیںجنہیں تاریخ کا پورا علم نہ ہو اِس لیے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں ایسا خیال کرتے ہوں گے جبکہ حقیقت اِس کے خلاف ہے ۔ کیونکہ حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ اور ان کی جماعت جمعیة علماء ہند کا موقف یہ تھا کہ'' تقسیم ہند'' ہند و ستان کے سب مسلمانوں کے مسائل کا حل نہیں ہے ۔ تقسیم سے اُن علاقوں کو فائدہ پہنچے گا جہاں مسلمان پہلے ہی سے تعداد میں زیادہ ہیں اور وہ فائدہ بھی مکمل نہ ہو گاکیونکہ اِن علاقوں کی مسلم آبادی ٥ئ٥٥ ہے اور غیر مسلم آبادی ٥ئ٥٤ ہے ۔غیر مسلم آبادی مؤثر ترین اقلیت ہو گی( اگر پاکستانی علاقوں سے غیر مسلم نہ جاتے تو یہی تناسب تھا ) اُدھر جو صوبے ہندوستان میں رہ جائیں گے اُن کی مسلم آبادی بہت دُشواریوں میں گِھر جائے گی اور وہ ضعیف اقلیت بن کر دُوسروں کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے او ر تقسیم کے بعد پاکستان ایسا ہی ایک پڑوسی ملک ہو جائے گاجیسے افغانستان اور ایران ۔ لیکن قائداعظم نے اِن نظریات کا جواب کانپور اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ دیا تھا :