ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2010 |
اكستان |
|
''میں اکثریت کے ساڑھے سات کروڑ مسلمانوں کی آزادی کی خاطر مسلم اقلیّت والے صوبوں کے ڈھائی کروڑ ١ مسلمانوں کو قربان کرکے ان کے مراسم تجہیز و تکفین ادا کرنے کو تیار ہوں۔''(سہ روز ہ اَخبار مدینہ ، بجنور یو پی ٩ جولائی ٤٤ء بحوالہ کشفِ حقیقت ص٥٨ مصنفہ حضرت مدنی ) اِس سے بہت پہلے احمد آباد کی تقریر میں فرمایا تھا : ''اقلیت والے صوبوں پر جو گزرتی ہے گزر جانے دولیکن آئو ہم اپنے اُن بھائیوں کو آزاد کر ادیں جو اکثریت کے صوبوں میں ہیں تاکہ شریعت ِاسلامی کے مطابق وہاں آزاد حکومت قائم کر سکیں۔''(ایمان لاہور مؤرخہ ٢٨ فروری ١٩٤٠ء پاکستانی نمبر بحوالہ کشف ِحقیقت ص ٥٩) معلوم ہوا کہ یہ نکتہ کہ مسلم اقلیت والے صوبوں میں مسلمانوں کا کیا ہوگا؟اِن کے لیے کون سا فارمولا مفید رہے گا ۔ ٤٠ء سے بھی پہلے سے مدارِ فکر چلا آرہا تھا ۔ جمعیة کے حضرات یہ بھی برابر کہتے رہے ہیں کہ سب یکجا مل کر بیٹھیں اور اِس مسئلہ پر غور کرکے ایک بات طے کرلیں ہر پہلو پر بحث و تمحیض کے بعد جو کچھ طے ہو اُس پر سب متفق ہو کر چلیں۔( ملاحظہ ہو کشفِ حقیقت کاآخری صفحہ) حضرت مدنی جمعیّت علماء ہند کے صدر تھے اَور حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب ناظمِ اعلیٰ (ناظمِ عمومی )تھے۔ آئیے آپ کو اُن کی اُس زمانہ کی ایک تحریر دکھلائیں جس سے اُمید ہے آپ کی تاریخی معلومات میں اضافہ ہوگا اور یہ بھی کھل کر سامنے آ جائے گا کہ جمعیت کا موقف کیا تھا ۔کیااُن کا موقف وہ تھا جو بقول سیٹھی صاحب کانگریس کہتی تھی یا اپناجدا فارمولاتھا اور وہ آخر تک چاہتے رہے تھے کہ مسلمان سب مل کر بیٹھیں اور حل نکالیں۔ مولانا حفظ الرحمن تحریر فرماتے ہیں : ١ تقریر میں اُنہوں نے یہی فرمایا تھا ورنہ اُس وقت اِنڈیا میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ تھی اور اَب وہ کم اَز کم بارہ کروڑ ہیں۔