ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
چنانچہ شہنشاہِ فرانس کی وصیت کی روشنی میں محاذِ جنگ کو اسلحہ سے علم کی طرف موڑنے کاکام شروع ہوا، اِس سلسلے میں سب سے اہم پیش رفت اُس وقت ہوئی جب یو رپ کا سب سے بڑ ا سائنسدان راجر بیکن (Roger Bacon) اورطلیطہ کارئیس الاساقفہ (آچ بشب) ریمنڈ لل (Ramad Lull ) نے رُومن یورپ سے (جو تقریباً 700 سال سے عملاً یورپ کا حکمران تھا طویل مذاکرات ومبا حثوں کے بعد عربی زبان اور اُس کے ذریعے مسلما نوں کے علوم ( کائناتی وسائنسی) کو حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یورپ کو شروع میں تردد تھا کہ کہیں عربی زبان اور علوم کی راہ سے مسلمانوں کا تمدن اور مذہب نہ سرایت کر جائے۔ بڑی ردّو قدح کے بعد اُن سکالر زنے پوپ کو اطمینان دلایا کہ مسلمانوں سے علوم کے حصول کے ساتھ ساتھ ہم اِسلام کومسخ کرنے اور اِسلام کی نفرت انگیزودہشت گرد انہ تصویر بنا نے کا کام بھی ساتھ ہی کریں گے ۔ تب پوپ نے ایک عظیم مشن کے طور پر اِسلامی علوم وفنون سیکھنے اور اُن علوم میں مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنے کے کام کی اجازت دے دی۔ اقوامِ عالم کے درمیان جنگ کا فیصلہ کُن پہلو ہمیشہ علمی رہاہے شکست کھا جانے والی اقوام کے لیے دوبارہ غلبہ وعروج کی راہ صرف علم کی شاہراہ سے گزرتی ہے دُوسری عالمگیر جنگ میں جاپان پر امریکی فتح درحقیقت امریکہ کی سائنس وٹیکنا لوجی کی فتح تھی۔ اِس بھیانک شکست کے بعد جاپان نے شکست کے حقیقی اسباب یعنی علم اور سائنس پرتوجہ مرکوزکرکے علوم ِ فطرت میں پیش رفت جاری رکھی۔ نصف صدی کے اَندر اَندر اِس چھوٹے سے جزیرے نے دُنیا کی سب سے بڑی امپائر کو پیچھے دھکیل دیا۔اَب امریکہ کے لیے ممکن نہیں رہا کہ وہ جاپان کو نظر انداز کر سکے علم نے مفتوح کو فاتح پر برتری دِلوادی۔ گیا رہویں صدی عیسوی میں عربوں سے ملنے والے علمی وَرثہ نے عثمانیوں (ترکوں) کو اِس قابل بنا دیا تھا کہ وہ دُنیا کی سب سے بڑی سیاسی وعسکری طاقت (رُومن اَمپائر) کا سامنا کر کے اُسے شکست دے سکیں مگر اُن سے غلطی یہ ہوئی کہ اُنہوں نے صرف عسکری قوت پر تکیہ کیا علمی ورثہ کو آگے بڑھا نے پر توجہ نہیں دی کیونکہ ترکوں کا ماضی محض عسکری تھا وہاں کوئی علمی روایت نہیں تھی۔ اِنہیں احساس اُس وقت ہوا جب بہت دیر ہوچکی تھی ایک طرف مغرب علم میں بہت آگے بڑھ گیا تھا دُوسری طرف مسلمانوں نے دُوسروں سے علم اَخذ کرنے کی صلاحیت کھو دی تھی ،علم سے اِستفادے کے لیے وسعت ِ نظر ضروری ہے۔ جابر بن حیان کا قول ہے '' علم میں اِضافے نیز نئے نئے اِنکشافات واِیجادات کے لیے اِنسان کے سامنے کوئی حد نہیں، اُسے چاہیے کہ