ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
تہذیبوںکے عروج وزَوال میں عِلم کاکردار ( حضرت مولانا محمدعیسیٰ صاحب منصوری، لندن ) اقوامِ عالم کے درمیان جنگ کافیصلہ کُن پہلوہمیشہ علم رہاہے، شکست خوردہ اقوام کے لیے دوبارہ غلبہ وعروج کی راہ صرف علم کی شاہراہ سے گزرتی ہے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں عربوں سے ملنے والے علمی ورثہ نے عثمانیوں کواِس قابل بنادیاتھاکہ وہ دُنیاکی سب سے بڑی سیاسی وعسکری طاقت کاسامناکرکے اُسے شکست دے سکیں۔ اِنسان کی قسمت علم سے وابستہ ہے اللہ تعالیٰ نے اُس کی دُنیوی واُخری کامیابی و فلاح کامدارعلم پررکھاہے یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کواپنی معرفت کے علم کے ساتھ علم الاسماء یعنی کائناتی علم سے بھی سرفرازفرمایا۔ جوبھی قوم کائنات کی ماہیت وحقیقت اوراُس کے استعمال کے طریقوں سے زیادہ واقفیت رکھے گی دُنیوی نظام واقتدار اُن کے حوالے کیاجائے گایہی ہمیشہ ضابطہ ٔخداوندی اورسنت اللہ رہی ہے۔ تشریحی وتکوینی دونوں علم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اِنسانوں کوعطاکیے ،اللہ کاآخری پیغام (قرآن)دونوں علوم سے بھرپورہے دونوں علوم کی اہمیت سینکڑوں آیات سے ہویداہے پیغمبراسلام ۖ نے علم کوایک وحدت کے طورپردیااورآپ کی تربیت کردہ جماعت نے دونوں علوم میں سرفرازی حاصل کی۔ کائناتی نظام کواَحسن طریقے پر چلانے میں حضرت عمر کی اوّلیات اورمعاصراَقوام پرغلبہ کے لیے عصری ٹیکنالوجی میں سبقت دورِعثمانی کے بحری بیڑے سے ظاہرہے جس نے 654 ء میںاُس دَورکی سب سے بڑی سپر پا و ر ( سلطنت ِرُوما ) کے بحری بیڑے کے تمام پانچ سوجہازایک دِن میں بحررُوم میںغرق کرکے بحر رُوم سے 800 سالہ رُومی تسلط ختم کرکے اُس پرمسلمانوں کی حکمرانی قائم کردی۔ اُس کے بعداِسلامی بحری طاقت کوصدیوں تک کوئی قوم چیلنج نہ کرسکی۔ دورِ خلافت ِ راشدہ کے بعد اَسی سال اُموی دورمیں مسلمان اَفریقہ، وسط ایشیایورپ کی فتوحات و استحکام کے ساتھ اُس دورکے تمام کائناتی وعصری علوم وفنون میں اقوام عالم سے سبقت حاصل کرچکے تھے۔