ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
متبادل صورت ممکن ہے وہ یہ ہے کہ کمپنی کے ڈائریکٹروں یا منیجروں میں سے ایک اپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے وقف کا متولی ہو جائے اور وہ وقف فنڈ کے انتظام کے لیے کمپنی کو اُجرت پر لے لے اور وقف کے اموال بھی مضاربت کی بنیاد پر کمپنی کے حوالے کر دے۔'' ہم کہتے ہیں : یہ تو پہلے سے بدتر صورت ہے اور آسمان سے گرا کھجور میں اَٹکا کا مصداق ہے کیونکہ : مولانا مدظلہ لکھ چکے ہیں کہ تنشئی شرکة التامین الاسلامی صندوقا للوقف و تعزل جزأ معلوما من رأس مالھا یکون وقفا (اسلامی اِنشورنس کمپنی اپنے سرمایہ کے ایک حصہ سے وقف فنڈقائم کرتی ہے) جس کا مطلب ہے کہ پہلے کمپنی قائم ہوتی ہے اور وہ اپنے سرمایہ سے وقف فنڈ کو قائم کرتی ہے پھر مولانا مدظلہ کے بقول کمپنی ایک قانونی شخص ہے جس میں ڈائریکٹران کی ذاتی شخصیت گم ہو جاتی ہے اور تمام حقوق و ذمہ داریوں کی نسبت کمپنی کے قانونی شخص کی طرف کی جاتی ہے۔ لہٰذا کوئی ڈائریکٹر کمپنی کا جو بھی کام کریگا اُس کو درحقیقت کمپنی ہی کا کرنا کہیں گے۔ اِس کا حاصل یہ نکلا کہ کمپنی وقف فنڈ قائم کر کے واقف بن گئی۔ اَب مولانا کہتے ہیں کہ ایک ڈائریکٹر اپنی ذاتی شخصیت کے اعتبار سے وقف فنڈ کا متولی بن جائے۔ لیکن جواب میں ہم کہتے ہیں کہ جب کمپنی کے کام کے اعتبار سے ڈائریکٹر کی ذاتی شخصیت کمپنی میں گم ہے اور اُس کا کرنا کمپنی کا کرنا ہے تو اِس کا حاصل یہ ہوا کہ واقف بننے کے بعد کمپنی اپنے آپ کو ایک نئے معاملہ کے ساتھ متولی بناتی ہے۔ پھر مولانا مدظلہ کی اِس تجویز کے مطابق کمپنی ہی خود سے انتظام کے لیے اُجرت پر معاملہ بھی کرتی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے مضاربت کا معاملہ بھی کرتی ہے۔ غرض مولانا مدظلہ کی باتوں سے وہی الزام ثابت ہوا جو ہم نے اُن پر عائد کیا تھا کہ مولانا نے کمپنی کو رب المال اور مضارب دونوں ہی بنا دیا جو جائز نہیں۔ -2 وقف یا اُس کی ملکیت کو ختم کرنا : تکافل کمپنی کہتی ہے : This Policy may at any time be terminated at the