ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
قسط : ٣ ، آخری کیا تکافل کا نظام اِسلامی ہے؟ ( حضرت مولانا ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ) حضرت مولانا محمد تقی عثمانی مدظلہ کی کوششوں سے اِنشورنس کے مروجہ نظام کی جگہ ''تکافل'' کے نام سے اِسلامی انشورنس کا نظام بہت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔اِس نظام کے بارے میں ہم نے مولانا تقی عثمانی مدظلہ کا ایک عربی رسالہ اور اُن کے دارالعلوم کے ایک اُستاد ڈاکٹر اعجاز احمد صاحب صمدانی کی ایک کتاب کا مطالعہ کیاتو ہمیں یہ نظام شریعت کے متصادم نظر آیا ،اِسی کے بیان میں یہ زیر نظر مضمون ہے۔(عبدالواحد غفرلہ) پہلا اشکال : (مدرسہ یا کنویں کی) جو مثالیں اُوپر ذکر کی گئیں اُن کے اندر وقف سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے یہ شرط نہیں کہ وقف سے فائدہ اُٹھانے والے شخص نے بھی کچھ نہ کچھ عطیہ ضرور دیا ہو بلکہ مثلاً جب کوئی کنواں وقف ہوگیا تو اَب اُس سے یہ پیاسا شخص پانی پی سکتا ہے چاہے اُس نے کنویں کو خرید کر وقف کرنے میں کوئی حصہ ملایا ہو یا نہ ملایا ہو۔ (بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خواہ اُس نے کنویں کے اَخراجات کے لیے چندہ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔ ……عبدالواحد) تکافل ص 102,103۔ صمدانی صاحب کا جواب : ''وقف کے اَندر اِس بات کی شرعًا گنجائش ہے کہ وہ کسی مخصوص طبقے یا افراد کے لیے ہو مثلاً کوئی شخص یہ شرط لگائے کہ میں فلاں باغ اِس شرط پر وقف کرتا ہوں کہ اِس کا پھل صرف فلاں رشتہ داروں کو یا میری اَولاد کو دیا جائے یا میری زندگی میں مجھے ملتا رہے اور میرے بعد فلاں بستی کے فقراء اِس سے فائدہ اُٹھائیں۔