ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
اور غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) موجود ہے لیکن چونکہ یہ عقد تبرع ہے اِس لیے یہاں جہالت اور غیر یقینی کیفیت (Uncertainty) کا پایا جانا ممنوع نہیں۔ اس طرح جب ہم نے اِنشورنس کا ڈھانچہ بدل دیا تو یہاں پر بھی غیر یقینی کیفیت پائے جانے کے باوجود معاملہ ناجائز نہیں ہوگا۔'' (تکافل ص 121,122) ہم کہتے ہیں : صمدانی صاحب نے یہاں بھی وہی کام کیا ہے کہ معاملہ کے حصے بخرے کیے اور پھر ہر حصہ کی جائز ہونے کو مثال سے ذکر کر دیا۔ معاملہ کی جو مجموعی صورت ہے اِس پر نظر کرنے پر وہ آمادہ ہی نہیں ہیں حالانکہ یہاں اصل تو مجموعی صورت ہی ہے۔ دیکھیے صمدانی صاحب نے تبرع کی یہ مثال دی ہے کہ کسی شخص نے آپ کو سو روپے ہدیے کے طور پر دیے پھر کسی موقع پر آپ کی اُس سے ملاقات ہوئی تو آپ نے دو سو روپے ہدیے کے طور پر دیے تو یہ نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ ہو گا۔ اِس مثال سے صمدانی صاحب نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ تکافل میں بھی تبرع ہوتا ہے اِس لیے وہ جائز ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ صمدانی صاحب کی یہ مثال تکافل کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ اِس کی مثال تو یوں بنتی ہے کہ زید بکر سے کہے کہ اگر تم مجھے سو روپے ہدیہ کرو گے تو وسائل کے ہونے کی صورت میں کبھی تمہیں ضرورت پڑی تو میں تمہیں دس ہزار روپے دُوں گا۔ اِس کو کون محض عقد تبرع کہے گا اور عقد معاوضہ نہ سمجھے گا پھر جبکہ وقف فنڈ اور تکافل کمپنی قانونی حیثیت رکھتے ہیں اور اِن کے قواعد و ضوابط اور اغراض و مقاصد کو قانونی حیثیت حاصل ہے تو یہ اور پختہ عقد معاوضہ بنے گا۔ عملی خرابیاں : -1 کمپنی خود ہی رب المال اور خود ہی مضارب بنتی ہے: تکافل کمپنی لکھتی ہے : The Company shall act as a Mudarib for the