ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( طلاق دینے کا بیان ) مسئلہ : طلاق دینے کااِختیارصرف مردکوہے۔ جب مردنے طلاق دے د ی توپڑگئی۔ عورت کا اِس میں کچھ بس نہیں چاہے منظورکرے چاہے منظورنہ کرے ہرطرح طلاق ہوگئی اورعورت اپنے مردکوطلاق نہیں دے سکتی۔ مسئلہ : مردکوفقط صرف تین طلاق دینے کااِختیارہے اِس سے زیادہ کااِختیارنہیںاگرچارپانچ طلاقیں دے دیں تب بھی تین ہی طلاقیں ہوئیں۔ مسئلہ : جب مردنے زبان سے کہہ دیاکہ میں نے اپنی بیوی کوطلاق دے دی اوراِتنے زورسے کہا کہ خوداِن الفاظ کوسن لیا بس اِتناکہتے ہی طلاق پڑگئی چاہے کسی کے سامنے کہے چاہے تنہائی میں اورچاہے بیوی سنے یانہ سنے اور چاہے عورت کے ماہواری کے دن ہوں یاحمل کے ہی دِن ہوں ہرحال میں طلاق پڑگئی۔ مسئلہ : کسی نے ایک طلاق دی توجب تک عورت عدّت میں رہے تب تک دُوسری اورتیسری طلاق دینے کااِختیاربنتاہے، اگردے گاتوپڑجائے گی۔ مسئلہ : کسی نے طلاق دے کراِس کے ساتھ ہی اِنشاء اللہ بھی کہہ دیاتوطلاق نہیں پڑی۔ اِسی طرح اگریوں کہا اگرخداچاہے توتجھ کوطلاق، اِس سے بھی کسی قسم کی طلاق نہیں پڑتی۔ البتہ اگرطلاق دے کر ذرا ٹھہرگیاپھراِنشاء اللہ کہا توطلاق پڑگئی۔ مسئلہ : شوہرنے مثلاً کہا ایک طلاق دی یامیری طرف سے ایک طلاق تواگرچہ اِس میں طلاق کی صریح اِضافت اورنسبت بیوی کی طرف نہیں ہے یعنی بیوی کانام لے کرنہیں کہا کہ اُس کوطلاق دی تب بھی اگر خطاب بیوی سے تھا یااُس کی طرف اِشارہ تھا جوزوجہ کی طرف اِضافت کے قرائن ہیں تویہ اِضافت معنویہ کافی ہے صریح اِضافت ضروری نہیں اورطلاق واقع ہوجائے گی لیکن اگرزوجہ کے مرادہونے پرقرائن نہ ہوں اورشوہربھی زوجہ کے مرادہونے کااِنکارکرتاہوتوطلاق واقع نہ ہوگی۔ مسئلہ : گونگااگرلکھنانہ جانتاہواورایسااِشارہ کرے جس سے صاف طورپر طلاق ہی سمجھی جائے