ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
|
جس طرح مدرسہ یا قبرستان کو چندہ دینے والا'' اور اِس پر ہونے والے اشکال کا جواب یہ دیا کہ وقف کرنے والا چندے کی شرط لگا سکتا ہے۔ لہٰذا صرف وقف کو چندہ دینے والا ہی اِس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ واقف کے شرط لگانے سے ہی شرط وجود میں آتی ہے اور انتفاع مشروط بنتا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ ممثل مشروط نہیں ہے جبکہ ممثل لہ مشروط ہے حالانکہ ممثل کو بھی مشروط کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اِس کے جوا ب سے صمدانی صاحب نے کنی کترا لی ہے۔ -2 صمدانی صاحب کے یہ الفاظ : ''اِس وقف سے صرف وہ لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو اِس وقف کو عطیہ دیں۔'' اِس پر واضح دلیل ہیں کہ یہ عقد معاوضہ (Commutative deal) ہے کیونکہ وقف فنڈ اور پالیسی ہولڈر آپس میں عوض کے طور پر لین دین کرتے ہیں اور -i عقود میں اعتبار معانی کا ہوتا ہے الفاظ کا نہیں۔ -ii وقف شخص قانونی ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ ''تم مجھے چندہ دو گے تو حادثہ کی صورت میں میں تمہیں تلافی کی رقم دُوں گا۔ اور تھوڑا چندہ دو گے تو تھوڑی تلافی کروں گا زیادہ دو گے تو زیادہ کروں گا۔'' اگر مولانا تقی عثمانی مدظلہ اور صمدانی صاحب اِس پر اصرار کریں کہ چندہ تو ہدیہ و عطیہ ہے اس میں عوض کا معنی نہیں اور پالیسی ہولڈر کے نقصان کی تلافی وقف کی شرط کی وجہ سے ہے تو یہ عجیب چکر ہے۔ اِن کی بات اُس وقت تو متصور ہوسکتی ہے جب کوئی محض نیکی کا کام سمجھ کر وقف فنڈ میں چندہ دے اور تکافل یا اِنشورنس کا اُس کو کچھ پتہ نہ ہو یا اُس کا اس سے آئندہ انتفاع کا واقعی کچھ ارادہ نہ ہو۔ پھر اتفاق سے حادثہ کی صورت میں اُس کو تکافل کمپنی نے یا کسی اور نے بتایا کہ تم تو فلاں وقف فنڈ سے نقصان کی تلافی کے حقدار ہو۔ لیکن جہاں پہلے ہی باہمی معاملہ کے سارے شرائط و ضوابط طے کیے جاتے ہوں اور کوئی بھی عوض کے لالچ یا توقع کے بغیر تکافل کمپنی کے دفتر میں قدم نہ رکھتا ہو اور پوری لکھت پڑھت کی جاتی ہو وہاں اِس قسم کے حیلے بہانے معاملہ کی حقیقت کو نہیں بدلتے ورنہ تو معاشیات کے اِس انتہائی ترقی یافتہ دور کے لوگ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ معاشیات میں اِسلام کے پاس سوائے حیلے بہانوں کے اور کچھ نہیں ہے۔ دُوسرا اشکال : صمدانی صاحب لکھتے ہیں ''وقف کا یہ طریقہ بھی ہے کہ جو زیادہ عطیہ دے (یعنی زیادہ پریمیم دے) وہ