ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2008 |
اكستان |
اُس نے کہا کہ یہ لوگ جو مدرسہ میں پڑھنے والے ہیں یہ ''زونگ'' ہوتے ہیں العیا ذباللہ ۔وہ بچیاں مطلب نہیں سمجھیںاِس کا ،ورنہ تو اگر مطلب سمجھتیں تو میں سمجھتا ہوںکہ اُسی وقت اُٹھ کراُس کو جو تے مارتیں اور ٹائی کھینچ کر اُس کو اِسی حال میں چکر لگواتیں ۔اُس نے وہ بات کی جو کافر بھی جرأت نہیں کرسکتے کہنے کی۔ اُس نے مسلمان ملک میں مسلما نوں کے ٹیلیویژن پر آکر یہ کہا۔ مجھے بھی اِس کا مطلب پتہ نہیں تھا اُنہوں نے بتایا جو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ دینی مدرسوں والے ایسے لو گ ہیں العیاذ باللہ ۔ اِس نے دین کا مذاق اُڑایا کہ یہ لوگ ہیں یہ شیر پاؤ ہے اور یہ سارے لوگ آپ کو معلوم ہے کس طرح ملوث تھے ان کاموں میں، سب کام انہوں نے امریکہ اور برطا نیہ کے اِشارے پر کیے اُن کے دل میں خدا کا خوف نہیں ہے تو اصل دقیانوس یہ ہیں آپ نہیں ہیں یہ بچیاں نہیں ہیں یہ بچے نہیںہیں ہمارے الحمد للہ۔ اصل بددین اور دقیانوس یہ طبقہ ہے ۔ آپ کی نظر اِن کی باتوں پر نہیں جانی چاہیے اِن کی چیزوں سے آپ ہرگز دِل گرفتہ نہ ہوں دِل برداشتہ نہ ہوں مرغوب نہ ہوں اِحساس کمتری میں نہ پڑیں ۔ سر اُٹھا کر چلیں دل میں عاجزی ہو،سر اُٹھا ئیں اور دل میں عا جزی ہو دل میں بڑائی نہ ہو فخر نہ ہو۔دل میں بڑائی اور فخر آگیا تو اُسی دن رُسو اہوجائیں گے جیسے کہ نبی علیہ السلام اور صحابہ آپ کو حکم دیا اللہ تعالیٰ نے کہ طواف کرو اور رَمل کروچکر لگاؤ پہلوانوں کی طرح۔ جب نبی علیہ الصلوٰةوالسلام حج کے لیے تشریف لا ئے پہلا عمرہ کیا عمرہ ٔقضا کرنے کے لیے تشریف لا ئے تو اُس وقت کفار کا قبضہ تھا مکہ مکرمہ پر تو جب آپ ۖ تشریف لائے توبہت عاجزی واِنکساری کا مقام ہے بیت اللہ کے پاس حاضر ہو نا اُس کا حق اَ دا کرتے ہوئے طواف کر رہے ہیں عاجزی کے ساتھ۔ تو مشرکین نے مذاق اُڑایانبی علیہ السلام کا اور آپ کی جماعت کا کہ اِنہیںحمّٰی یثرب (یعنی مدینہ منورہ کے بخار )نے لاغر کر دیا اِن میں کچھ بھی نہیں رہا دیکھو کیسے چل رہے ہیں تونبی علیہ الصلوٰة و السلام کواللہ کے طرف سے حکم ہوا اور آپ کو اُن کے یہ جملے پہنچائے گئے بہرحال آپ نے خود سے کیا ہو یا اللہ کے طرف سے حکم آیا ہو بات ایک ہی ہے کہ اَکڑ کے چلو چنانچہ رَمل شروع کیا ۔ ''بیت اللہ ''اللہ کا گھر ہے وہاں اَکڑ کا موقع ہے؟ ظاہرًا اَکڑ ہے دل میں نہیں اِن کفار کو جلانے کے لیے اکڑنا ہے دل میں نہیں اَکڑنا ، دل میں تو ڈر کا مقام ہے پتہ نہیں کہ یہ ہمارا حج قبول بھی ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا پتہ نہیں یہ طواف قبول بھی ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا تویہ سنت قائم ہوگئی۔