ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
تواِنسان کی اصل جہالت ہے کائنات کی اصل علم ہے لہٰذاجب میر ی اصل جہالت ہے توسب سے پہلاکام میرے ذمّہ ہے کہ میں علم حاصل کروں میں اپنی جہالت کودُورکروں یہ پہلااَمرہے یہی کمزورہوگا تو سارادین کمزور ہو گا۔علم ایک اصل ہے باقی سارے شعبے ہیں۔ میری بات غورسے سننا،علم ایک اصل ہے باقی سارے شعبے ہیں جب اصل کمزورہوگاتوباقی سارے شعبے کمزورہوجائیں گے۔ علم کوکسی کی محتاجی نہیں اورتمام شعبے علم کے محتاج ہیں ،دین کے تمام شعبے جوبراہِ راست دین ہیں یابالواسطہ دین ہیں وہ علم کے محتاج ہیں علم کسی کابھی محتاج نہیں وہ اپنی ذات میں خود ایک مکمل چیزہے لیکن جتنے شعبے ہیں وہ اپنی ذات میں تب مکمل ہوں گے جب اُن میں اللہ کاعلم آئے گا۔ پہلی وحی آئی اِقْرَأْ جبرائیل نے بھی کہاکہ اِقْرَأْ مَا اَنَا بِقَارِیٔ اِقْرَأْ مَا اَنَا بِقَارِیٔ اِقْرَأْ تین دفعہ اِقْرَأْ اِقْرَأْ اِقْرَأْ دودفعہ قرآن میں اِقْرَأْ بِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَأْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ پانچ دفعہ اِقْرَأْ اِقْرَأْ اِقْرَأْ اِقْرَأْ اِقْرَأْ ۔ اُتلُ مَآاُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ اور اِقْرَأْ اِن دونوں میں فرق ہے۔ اُتلُ کامطلب ہوتاہے پڑھو اُتلُ کامطلب پڑھنے تک ہے سمجھنے پردلالت نہیں کرتااور اِقْرَاْ کا مطلب ہوتاہے ایساپڑھناپڑھوکہ جوپڑھ رہے ہووہ سمجھ میں بھی آرہاہو جیسے ایک عالم قرآن پڑھتاہے تووہ قاری ہے اورایک حافظ قرآن پڑھتاہے تووہ تالی ہے تلاوت کرنے والااُس کی تلاوت اِس کی قراء ت ہے، قراء ت کامطلب ہوتاہے سمجھ کر پڑھنااورتلاوت کامطلب ہوتاہے خالی پڑھنااُس میں سمجھنانا سمجھنا شامل نہیںلیکن قراء ت کے مفہوم میں شامل ہے ایساپڑھناجس کی تمہیں سمجھ بھی آرہی ہو۔ توپہلااَمرہے اِقْرَأْ اورپہلی کیفیت ہے لَا اَدْرِیْ جواپنے آپ کوجاہل سمجھے گا ساری زندگی اُس کاعلم بڑھتارہے گا جواپنے آپ کوعالم سمجھے گا وہ ہمیشہ اَٹکارہے گا المّ یہ اعتراف ِجہالت ہے المّ مطلب بیان کروکیوں بھئی کرسکتے ہو؟شیخ التفسیرامام غزالی سے کہو امام رازی سے کہو ،کرلیں گے ؟ حِبْرُالْاُمَّةِ اِبْنُ الْعَبَّاسِ جو تفسیرقرآن میں سب سے مشہور ہیںوہ کرلیں گے؟ اَ لم کوغیرعربی میں اوریہ ہونہیں سکتاکہ اِن کاکوئی مطلب نہ ہودُنیا میں واحدزبان ہے عربی جس کے حروف کابھی مطلب ہے۔ اُرود میں '' س '' کاکوئی مطلب نہیں لیکن عربی میں ''س'' کامطلب ہے۔ اُردو میں ''ص ''کا کوئی مطلب نہیں لیکن عربی میں''ص '' کا