ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
عو ر توں کے رُوحانی امراض ( از اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ ) لباس، زیور، میک اپ (زینت )کامفسدہ : غضب یہ ہے کہ ایک شادی کے لیے ایک جوڑابناوہ دُوسری شادی کے لیے کافی نہیں۔ اِس کے لیے پھردوسراجوڑاچاہیے۔ یہ توپوشاک کی تیاری تھی اَب زیورکی فکرہوئی ،اگراپنے پاس نہیں ہوتا تومانگ مانگ کر پہنا جاتاہے اوراُس کے عاریت (مانگا ہوا)ہونے کوپوشیدہ رکھاجاتاہے اِس کو اپنی ہی ملکیت ظاہر کیا جاتا ہے یہ ایک قسم کاجھوٹ ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ جوشخص بہ تکلف اپنی آسودگی (خوشحالی )ظاہرکرے ایسی چیزسے جواُس کی نہیں ہے اُس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے دو کپڑے جھوٹ اورفریب کے پہن لیے یعنی سرسے پاؤں تک جھوٹ ہی جھوٹ لپیٹ لیا۔ پھراکثرایسازیورپہناجاتاہے جس کی جھنکاردُورتک جائے تاکہ محفل میں جاتے ہی سب کی نگاہیں اِنہی کے نظارہ میں مشغول ہوجائیں۔ بجتازیورپہنناخودممنوع ہے، حدیث میں ہے کہ ہرباجے کے ساتھ ایک شیطان ہوتاہے۔ بعض عورتیں ایسی بے احتیاط ہوتی ہیں کہ ڈولی (سواری) سے پلہ لٹک رہاہے یاکسی طرف سے پردہ کھل رہاہے یاعطر اِس قدرملاہے کہ راستہ میں خوشبومہکتی جاتی ہے۔ یہ نامحرموں کے رُوبروزینت ہے حدیث میں وارِدہے کہ جوعورت گھرسے عطرلگاکرنکلے یعنی اِس طرح کہ دُوسروں کوبھی خوشبوپہنچے تووہ ایسی ویسی ہے (یعنی بدکارزَانیہ ہے)۔(اصلاح الرسوم ) عورتوں کی زبردست غلطی : یہ عجیب بات ہے کہ گھرمیں بھنگنوں اورماماؤںکی طرح رہیںاورڈولی (رکشہ )آتے ہی بن سنور کر بیگم صاحبہ بن جائیں ،کوئی اِن سے پوچھے کہ اچھے کپڑے پہننے کی غرض کیا صرف غیروں کودِکھاناہے؟تعجب ہے کہ جس کے واسطے یہ کپڑے بنے اورجس کے دام لگے اُس کے سامنے کبھی نہ پہناجائے اورغیروں کے سامنے پہناجائے ۔حیرت ہے کہ خاوندسے کبھی سیدھے منہ بات نہ بولیں، کبھی اچھاکپڑااُس کے سامنے نہ پہنیں اور