ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
ملفوظات شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ( مرتب : حضرت مولانا ابوالحسن صاحب بارہ بنکوی ) ٭ میرے متعلق نسبی حیثیت سے سےّدہونے کااِنکارجن حضرات نے کیاہے وہ اُس کے ذمہ دار ہیں، میں تواپنے نام کے ساتھ سیّدلکھتابھی نہیں ہوں، جس کی وجہ یہ ہے کہ مدارِنجات نسب نہیں ہے، عمل ہے۔ اگرنسبی حیثیت سے کوئی اعلیٰ درجہ کاہے مگراعمال قبیح ہیں تومثل پسرنوح علیہ السلام وہ راندۂ درگاہ خداوندی ہے اوراگرچمارزادہ یابھنگی زادہ ہے مگر وہ مسلمان متقی ہے تواُس کی فوز وفلاح مثل حضرت بلال وصہیب رضوان اللہ علیہاہے۔ ٭ تذکرة الاولیاء میں ہے کہ ایک روزامام جعفرصادق رحمة اللہ علیہ بغدادمیں ایک بڑے مجمع کے سامنے فرمانے لگے کہ بھائیو!تم میں سے جس کوروزِقیامت کے دن اللہ تعالیٰ بخش دے توتومیری شفاعت کرنا۔ لوگوں نے تعجب کیااورکہاکہ ہم آپ کی شفاعت کریں حالا نکہ آپ جناب رسول اللہ ۖکے صاحب زادے ہیں۔ توآپ فرمانے لگے کہ یہی چیزمیرے لیے باعث ِبے چینی ہے،اُمت کے تمام مسلمان میرے ناناحضرت محمد ۖکے مہمان ہیں اورمیں اُن کے خاندان کابچہ ہوں، قاعدہ ہے کہ مہمانوں کی خدمت گزاری خاندان کے چھوٹوں پرضروری ہوتی ہے، اگروہ کوئی کوتاہی کرتاہے توصاحب خاندان بہت خفا ہوتا ہے اورچھوٹوں کوسرزنش کرتاہے۔ اگرقیامت میں رسول اللہ ۖ نے میرے کندھے پرہاتھ رکھ کر مجھ سے سوال کیاکہ جعفر!تم نے میرے مہمانوں کی کیاخدمت کی تومیں شرم کی وجہ سے منہ نہ اُٹھاسکوں گا۔یہ اِرشادحضرت امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ کاصحیح ہے اورسادات کے لیے نہایت عبرت کافرمان ہے مگرافسوس کہ ہم انتہائی غفلت میں مبتلاہیں۔ میں نے جب سے یہ اِرشاددیکھا ہے بہت فکرمندرہتاہوں ، اللہ تعالیٰ مددفرمائے۔ ٭ سادات کافرض سب سے زیادہ اوراوّلین ہے کہ آقائے نامدارعلیہ السلام کی دلائی ہوئی شریعت