ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
ہم کہتے ہیں کہ یہ جواب بھی محض ایک تکلف ہے جو ملابہاری رحمہ اللہ کو اِس لیے کرنا پڑا ہے کہ اُنہوں نے مسح خفین اور اکلِ مَیتة کو ایک جیسا سمجھ لیا ہے حالانکہ دونوں میں فرق ہے۔ اکلِ مَیتة میں تو لاچار کے لیے نہ سبب حرمت ثابت ہے اور نہ ہی حرمت کا حکم ،اسی وجہ سے لاچار اگر مردار نہ کھائے اور مرجائے تو گناہ گار ہوتا ہے ۔اس کے برعکس مسحِ خفین کے مسئلہ میں پاؤں دھونے کا اختیار اِس بات پر دلیل ہے کہ اُس کا سبب یعنی پاؤں کا حدث موجود ہے۔ مزید دلائل ہم اُوپر ذکر کرچکے ہیں۔ اِسی لیے پاؤں دھونے سے وہ گناہ گار نہیں ہوتا۔ حاصل ِکلام یہ ہے کہ رُخصت کی چوتھی قسم کی دو مختلف صنفیں ہیں۔ ایک جس کی مثال لاچار کے لیے اکلِ میتةہے کہ لاچار کے حق میں نہ تو سبب موجود ہے اور نہ ہی لاچاری کے وقت تک حکم۔ دُوسری جس کی مثال مسحِ خفین کی ہے کہ اِس میں پاؤں دھونے کا سبب تو موجود ہے لیکن مستور ہے کہ موزے نے اِس کو چھپالیا ہے اور پاؤں دھونے کا وجوبی حکم اِس سے مسح کی مدت میں مرتفع ہے وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ بقیہ : درس حدیث جن کا نام براء بن مالک ہے رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ایک ہیں براء بن عازب یہ براء بن مالک ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اُن کا نام لے کر اُن کے بارے میں کہ وہ ایسے ہیں خدا کو عزیز کہ اگر وہ کوئی بات کہیں تو اللہ تعالیٰ وہ پوری کردیںگے۔ ایک اور بھی بات ہے کہ ایسے لوگ پھر ایسی بات ہر وقت کہتے بھی نہیں ہیں شاذ و نادر ایسے ہوجاتا ہے یہ نہیں ہے کہ ہر وقت وہ اِسی مستی میں رہیں اور ایسی کیفیت رہنی لگے ایسے نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِن حضرات کا ساتھ نصیب فرمائے، آمین۔ اختتامی دُعاء .....