ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
اُٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دِل پر تیر کون ( جناب پروفیسر میاں محمد افضل صاحب، ساہیوال ) نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم اما بعد ! اِس دُنیا میں موت و حیات کا کھیل شروع ہی سے جاری ہے ،جو آیا ہے اُسے جانا بھی ہے۔ موت ایک ایسی اَٹل حقیقت ہے جس کا منکر کوئی کافر بھی نہیں ہے۔ خدا کے وجود کے منکر تو دُنیا میں موجود ہیں لیکن موت کے منکر اِس دُنیا میں ناپید ہیں۔ ہاں کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بھلانا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگ اپنے لیے نہیں بلکہ خلق ِ خدا کی بہتری اوربھلائی کے لیے جیتے ہیں۔ اُن کی زندگی کا مقصد خلق ِ خدا کی اِصلاح ہوتا ہے۔ وہ بھٹکے لوگوں کو راہِ حق دکھلاتے ہیں اور اُن کے فیض ِ نظر سے لاکھوں راہِ ہدایت پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی موت کے متعلق ہی حضورِ اکرم ۖ کا اِرشاد ہے مَوْتُ الْعَالِمِ مَوْتُ الْعَالَمِ کہ ایک عالِم کی موت دُنیا جہاں کی موت ہے۔ اِسی حدیث کے مصداق میرے مرشد و مربی مرشد العلمائ، مخدوم الصلحائ، پیکر ِ اخلاص و محبت، منبع ِ فیوض و برکات، سلسلۂ قادریہ چشتیہ رائے پور کے شیخ ِ بے بدل حضرت مولانا سیّد اَنور حسین نفیس رقم المعروف سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب تھے جو ٥ فروری ٢٠٠٨ء مطابق ٢٦ محرم ١٤٢٩ھ کو ہمیں بے سہارا چھوڑکر عازم ِ خلد ِ بریں ہوگئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔ آپ جیسی ستودہ صفات ہستیاں اِس دَور میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ آپ کی رِحلت کے بعد ہر طرف اَندھیرا ہی اَندھیرا ہے، روشنی کی کرن کہیں نظر نہیں آتی ۔ آپ کے والد ِ ماجد سیّد القلم محمد اشرف زیدی صاحب گھڑیالہ تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے اِنتہائی متدین اور نیک شخص تھے۔ آپ کی پیدائش ١١ مارچ ١٩٣٣ء کو اِسی گاؤں میں ہوئی۔ آپ کے والد صاحب نے آپ کا نام انور حسین رکھا۔ آپ نے ایف۔ اے کرنے کے بعد اپنے والد ماجد کے پیشہ ٔ خطاطی کو ہی اختیار کیا اور اِس فن میں امامِ فن کے مقام تک پہنچے۔ جب حضرت مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری سے بیعت ہوئے تو اپنے آپ کو شیخ کی محبت میں فنا کردیا اور اُنہی کے ہوکر رہ گئے۔ جلد ہی شیخ نے خلعت ِ