ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
ۖ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اُس نے پھر پوچھا کہ تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ تم بھی ہو۔ مسیلمہ نے اِن کو چھوڑدیا پھر دُوسرے سے پوچھا کہ تم محمد ۖ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اُس نے پوچھا کہ تم میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ میں کچھ بہرا ہوں میں نے سُنا نہیں۔ اُس نے تین دفعہ سوال دُہرایا اور اُنہوں نے تینوں مرتبہ وہی بات کہی۔ اِس پر مسیلمہ نے اُن کو قتل کردیا، جب رسول اللہ ۖ کو یہ بات پہنچی تو آپ ۖ نے فرمایا پہلے نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی رُخصت پر عمل کیا اور دُوسرا حق پر مارا گیا اُس کے لیے خوشخبری ہے۔ اِس رُخصت کی عقلی دلیل یہ ہے کہ کلمہ کفر نہ کہنے سے مجبور شخص کا اپنی جان میں جو حق ہے وہ سرے سے فوت ہوتا ہے ظاہری صورت میں بھی کہ قتل سے جسمانی ساخت بگڑتی ہے اور معنوی طور سے بھی کہ جسم سے رُوح نکل جاتی ہے جبکہ کلمہ کفر کہنے سے اللہ تعالیٰ کا حق قلبی تصدیق پر جمے رہنے کی وجہ سے معنوی طور پر باقی رہتا ہے۔ اِس رُخصت کی چند اور مثالیں : (1) جان یا عضو کے اِتلاف کی دھمکی سے مجبور ہوکر کسی کا رمضان کا روزہ توڑنا۔ اِس صورت میں رمضان کا روزہ توڑنے کی حرمت بھی قائم ہے اور اِس حرمت کا سبب یعنی رمضان کا مہینہ ہونا بھی موجود ہے اِن دونوں باتوں کے ہوتے ہوئے اگر مجبور شخص اپنا روزہ نہ توڑے تو یہ عزیمت ہے اور اَولیٰ ہے اور آدمی شہید ہوگا اور اَجر کا مستحق ہوگا لیکن چونکہ روزہ نہ توڑنے میں بندے کا حق جاتا رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا حق اِس طرح سے باقی رہتا ہے کہ آدمی اِس کی قضا کرسکتا ہے اِس لیے بندے کو رُخصت ہے کہ وہ زبردستی کے وقت روزہ توڑدے اور اُس کو گناہ نہ ہوگا۔ (2) جان یا عضو کے اِتلاف کی دھمکی سے مجبور ہوکر دُوسرے کا مال تلف کرنا اور بعد میں مالک کو تاوان اَدا کرنا۔ (3) جان یا عضو کے اِتلاف کی دھمکی سے مجبور ہوکر اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا۔