ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
ہوئے مکہ مکرمہ کے فتح ہونے کے بعد ہوئے ہیں۔ تو اُن کو فرمایا آپ نے تَغْےِےْرُ الشَّےْبْ کے لیے یعنی یہ جو بڑھاپے کی حالت ہے اِس کو بدلنے کے لیے رنگ لگالیں یعنی مہندی لگالیں۔ جمعہ اور صفائی : اِسی طرح جمعہ کے دن آتے تھے لوگ اپنے کاموں سے آتے تھے تو گرمی کے دنوں میں تو پسینہ اور کام جمع ہوجائیں تو کپڑوں میں ایک طرح کی بو پیدا ہوجاتی ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ اِس دن نہایا کرو بہتر دُھلے ہوئے کپڑے پہنو مسواک کرو، اور روایتوں میں آتا ہے کہ جو خوشبو میسر آسکے وہ لگاؤ تو بعض ائمہ تو کہتے ہیں کہ غسل جمعہ کے دن واجب ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے امام مالک رحمة اللہ علیہ کی طرف یہ منسوب ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ واجب ہے جمعہ کے دن غسل۔ حضرتِ عبد اللہ ابن ِ عباس رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ واجب تو نہیں ہے وجہ یہ ہوئی تھی کہ چھت بھی نیچی تھی گرمی بھی ہوتی تھی صحابۂ کرام آتے تھے تو پسینہ کی وجہ سے ایک ایسی چیز پیدا ہوجاتی تھی مسجدبڑی تھی پہلے تو تھی وہ چالیس ذراع ١ چالیس ذراع پھر ساٹھ ذراع ساٹھ ذراع ہوگئی پھر مأة فی المأة ہوئی(سوہاتھ ضرب سو ہاتھ)سو کا مطلب ہوا ڈیڑھ سو فٹ لمبی ڈیڑھ سو فٹ چوڑی تو بڑی جگہ تھی اور چھت نیچی تھی موسم گرمی کا اور لوگ مختلف ہیں کوئی محنت کا کام کرتا ہے اور گرمیوں میں تو ویسے ہی چلنے سے پسینہ آہی جاتا ہے تو جتنا نہانے کے بعد پسینہ آیا اور اُس کی بو ہوتو وہ تو شدید ناگوار نہیں ہوتی باقی ویسے ہی نہایا بھی نہ ہو میلے ہی مستعمل کپڑے کئی دن کے ہوں تو وہ بو ناگوارمحسوس ہوتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ نہایا کرو۔ حضرت ابن ِ عباس فرماتے ہیں کہ یہ اُس وقت کی بات ہے اُس کے بعد ایسے نہیں ہے۔ کہیں آیا ہے وَاجِب عَلٰی کُلِّ مُحْتَلِمٍ جمعہ کا غسل واجب ہے ہر بالغ پر، اور اِس حدیث شریف میں رسول اللہ ۖ ایک قسم کے لوگوں کی تعریف فرمارہے ہیں جن کو عام طور پر حقیر ہی سمجھا جاتا ہے تو اُس میں یہ ہے اَشْعَثَ پراگندہ سر اور پراگندہ سری کا مطلب ہے کہ وہ اِس طرح کا مزدُوری محنت کا ہی کام کرتا ہے ذِیْ طَمْرَینْ اُس کے پاس دو چادریں ہیں بس اُونی بھی نہیں سوتی ہیں اور لَایُعْبَأُلَہ اُس کی پروا بھی نہیں کی جاتی کسی کے پاس اگر وہ جاتا ہے تو کوئی اُس کے لیے کھڑا ہو یا کچھ تعظیم کرے یا خاص پرواہ کرے ایسے نہیں ہے۔ ١ ایک ذراع یعنی ایک ہاتھ یہ ڈیڑھ فٹ کے برابر ہوتا ہے۔