ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
دُوسروں کے گھروں میں جائیں توشیریں زبان بن جائیں اورکپڑے بھی ایک سے ایک بڑھے چڑھے پہن کر جائیں ،کام آئیں غیروں کے اوردام لگیں خاوندکے ،یہ کیاانصاف ہے۔ اِس تصنع کی یہاں تک نوبت پہنچی۔ اِرشادِنبوی ۖ اورضروری مسئلہ : رسو ل ا للہ ۖ فرماتے ہیں کہ جوشخص کوئی کپڑا دِکھاوے کی غرض سے پہنے گااُس کواللہ قیامت کے دِن ذِلت کالباس پہنائیں گے ۔کیاعورتوںکے اِن عمومی اَفعال کودیکھ کرکوئی کہہ سکتاہے کہ ُرسوم میں اِن کی نیت دُرست ہے ؟عورتوں کواِس طرف التفات بھی نہیں ہوتاکہ نیت دُرست اور نادرست (صحیح غلط ) کیسی ہوتی ہے۔اوریہاں کوئی شبہ نہ کرے کہ جب کوئی کپڑابناناہے تودوچارکپڑوں میں سے اچھاہی چھانٹ کرلیتاہے تویہ سب دِکھلاہوا ؟اس کاگُریادرکھوکہ اپناجی خوش کرنے کوکپڑاپہناجائے تومباح ہے اوردُوسرے کی نظرمیں بڑاہونے کے لیے پہناجائے توناجائزہے۔ (التبلیغ۔ دواء العیوب) عورتیں بھی سُن لیں کہ اگرکپڑے بالکل ہی میلے ہوں توخیربدل لووہ بھی سادے ورنہ ہرگزنہ بدلو۔ سیدھے ساد ھے کپڑوں میں مل آیاکرو ۔ملنے سے جو غرض ہے و ہ اِس صورت میں بھی حاصل ہوگی اوراخلاق کی بھی دُرستگی ہوگی۔ اوراگریہ خیال ہوکہ اِس میں ہماری حقارت ہوگی توایک تو جواب اُس کایہ ہے کہ نفس کی حقارت توہونی چاہیے۔دُوسراجواب تسلی بخش یہ ہے کہ جب ایک بستی کی بستی میں اِس کا رواج ہو جائے گاتو سیدھی سادھی طرح سے مل لیا کریں گی ۔تو اُنگشت نمائی اور تحقیر بھی نہ رہے گی ۔اور اگر غریب عورت مزدورکی بیوی بن ٹھن کر جاتی بھی ہے مگر جن عورتوں کو اِس کے گھر کی حالت معلوم ہے وہ تو یہی کہیں گی کہ نگوڑی مانگے کا کپڑا اور زیور پہن کر آئی ہے اِس پر اِتراتی ہے (التبلیغ)۔کوئی صاحب یہ شبہ نہ کریں کہ میں اچھے لباس کو منع کرتا ہوں ۔میں خود اچھے لباس کو منع نہیں کرتا بلکہ اُس مفسدہ سے بچاتا ہوں جو اِس کے ساتھ لگاہوا ہے ،وہ ریا اور عجب ہے جو اِن سے بچ سکے وہ پہنے۔ (حقوق الزوجین) کپڑے کے اچھے ہونے کے دو مرتبے ہیں ۔ایک یہ کہ برانہ ہوجس سے اپنا دل خوش ہوا ور دُوسروں کے سامنے ذلیل نہ ہونا پڑے اِس کا کچھ حرج نہیں ۔ایک اور یہ ہے کہ دُوسروں سے بڑھا چڑھا ہو کہ اِس کی طرف نظریں اُٹھیں یعنی دُوسرے کی نظرمیں بڑا ہونے کے لیے پہنا جائے ،یہ بُرااور ناجائز ہے۔