ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
اِس صورت میں اللہ تعالیٰ کا حق اِس طرح باقی رہتا ہے کہ مجبور شخص کم اَز کم ترک کرنے کی حرمت کا اعتقاد تو رکھتا ہے۔ (4) بھوک سے لاچار شخص کے لیے دُوسرے کا مال اُس کی اجازت کے بغیر کھانا اور بعد میں مالک کو تاوان اَدا کرنا۔ دُوسری قسم : مَااسْتُبِیْحَ مَعَ قِیَامِ السَّبَبِ لٰکِنَّ الْحُکْمَ تَرَاخٰی عَنْہُ کَالْمُسَافِرِ وَ حُکْمُہ اَنَّ الْاَخْذَ بِالْعَزِیْمَةِ اَوْلٰی وَلِتَرَدُّدٍ فِی الرُّخْصَةِ ۔ (نور الانوار) کام کے وجوب کا سبب موجود ہو لیکن عذر کی وجہ سے حکم کو عذر ختم ہونے تک مؤخر کردیا جائے۔ اِس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ واجب کرنے سے کوئی ضرر نہ ہو تو عزیمت یعنی اُس کام کو کرنا اَولیٰ ہے۔ لیکن عذر کی وجہ سے نہ کرے بلکہ عذر ختم ہونے پر کرے تو جائز ہے گناہ نہ ہوگا( البتہ اگر عزیمت پر عمل کرنے سے ضرر ہو اور جان جائے یا دُوسروں کو سخت پریشانی ہو تو عزیمت کو ترک کرنا واجب ہے ورنہ گناہ گار ہوگا)۔ مثلاً جو شخص سفر میں ہو اُس کے حق میں رمضان کے روزے رکھنا رمضان کی وجہ سے فرض ہے لیکن سفر کے عذر کی وجہ سے فرضیت سفر ختم ہونے تک مؤخر ہوگئی ہے۔ البتہ حکم کے سبب یعنی ماہ رمضان کی موجودگی کی وجہ سے روزے رکھے تو اَولیٰ ہے۔ اِس کی تائید اِس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رُخصت کا معنی یعنی سہولت و آسانی کبھی روزہ رکھنے میں ہوتی ہے کیونکہ رمضان میں روزے کی ایک عام فضا قائم ہوتی ہے جبکہ دُوسرے دنوں میں عام فضا نہ ہونے کی وجہ سے آدمی دُشواری محسوس کرتا ہے۔ تیسری قسم : تیسری قسم یہ ہے کہ شرعی حکم باقی ہی نہ رہے مثلاً سابقہ شریعتوں کے سخت احکام جو ہماری شریعت میں منسوخ ہیں یہ حقیقت میں رُخصت کی قسم نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری شریعت کا حکم ہی نہیں ہے البتہ مجازاً اِس کو رُخصت کہہ دیا جاتا ہے۔