ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
میں یہ درج ہے کہ مسح کسی صورت میں باطل نہیں ہوگا۔ لہٰذا روایتوں میں تعارض ہوا اور کسی ایک روایت کو ترجیح قوت ِدلیل کی بنیاد پر ہوگی اور وہ مسح کے باطل نہ ہونے کی دلیل کو حاصل ہے جبکہ بطلان کی روایت کی دلیل ضعیف ہے۔ وَفِیْہِ اَنَّہ وَاِنْ کَانَتْ مَذْکُوْرَةً فِیْھَا لٰکِنْ ذُکِرَ فِیْ فَتَاوَی الْاِمَامِ مُحَمَّدِ بْنِ الفَضْلِ لَا یَبْطُلُ الْمَسْحُ عَلٰی کُلِّ حَالٍ وَمِثْلُہ' فِی الْمُجْتَبٰی وَلَمَّا تَعَارَضَتِ الرِّوَایَاتُ فَالتَّرْجِیْحُ بِقُوَّةِ الدَّلِیْلِ وَھِیَ فِیْ دَلِیْلِ عَدْمِ بُطْلَانِ الْمَسْحِ وَ رِوَایَةُ الْبُطْلَانِ لِضُعْفِھَا مُنِعَتْ ۔ (فواتح الرحموت) پھر بحرالعلوم رحمہ اللہ نے ترجیح کے لیے جو بات ذکر کی ہے وہ یہ ہے : لَمَّا لَمْ یَدْخُلِ الْمُتَخَفِّفُ فِیْ خِطَابِ غَسْلِ الرِّجْلِ وَصَارَ وُضُوْئُ ہ' شَرْعًا مِنْ غَیْرِ غَسْلِ الرِّجْلِ وَلَمْ یَسْرِ الْحَدَثُ اِلَی الْقَدَمِ صَارَ غَسْلُ الرِّجْلِ کَغَسْلِ الظَّھْرِ وَالْبَطَنِ فَکَیْفَ یَجْزِیُٔ الْغَسْلُ حَتّٰی یَبْطُلُ الْمَسْحُ وَلَا یَجِبُ شَیْئ بِالنَّزْعِ وَانْقِضَائِ الْمُدَّةِ ۔ (فواتح الرحموت) موزے پہنا ہوا شخص پاؤں دھونے کے خطاب میں شامل نہیں اور شریعت کی رُو سے اُس کا وضو پاؤں دھونے کے بغیر ہے اور حدث نے اُس کے پاؤں کی طرف سرایت نہیں کیا لہٰذا اُس کا پاؤں دھونا ایسے ہی ہے جیسے کمر یا پیٹ کو دھونا۔ لہٰذا پاؤں کا دُھلنا کیونکر کافی ہوگا کہ یہ کہا جاسکے کہ اُس کا مسح باطل ہوگیا اور وضو ٹوٹنے سے پہلے موزے اُتارنے سے یا مدت ختم ہونے سے پاؤں دھونا واجب نہ ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ موزے پہنا ہوا شخص پاؤں دھونے کے خطاب میں شامل نہ بھی اور اِس کے لیے علیحدہ خطاب بھی مانیں تب بھی اِتنا تو ہے کہ اُس کو اختیار ہے کہ چاہے موزوں پر مسح کرے یا موزے اُتارکر پاؤں دھوئے یا موزے پہنے پہنے پاؤں دھوئے اور خطاب اِن تینوں اختیارات پر مشتمل ہوگا۔ اور خطاب آتا ہے سبب کے بعد۔ سبب یا تو موزے پر چڑھا ہوا حدث ہوگا یا پاؤں میں سرایت کیا ہوا حدث ہوگا۔ موزے پر چڑھے ہوئے حدث کے لیے مسح کا خطاب ہوا۔ پاؤں دھونے کے لیے پاؤں کا حدث ضروری ہے۔ لیکن