ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
اِس کو مسلم الثبوت میں یو ں لکھا ہے : وَفِیْہِ اَنَّہ اِنَّمَا یَتِمُّ لَوْ لَمْ یَکُنِ الْغَسْلُ ھُنَاکَ فِی الرِّجْلِ مَشْرُوْعًا لٰکِنَّہ مَشْرُوْع بَعْدُ وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ یَنْزَعُ خُفَّیْہِ وَلِہٰذَا یَبْطُلُ مَسْحُہ لَوْخَاضَ فِی النَّھْرِ وَدَخَلَ الْمَائُ فِی الْخُفِّ وَلَا یَجِبُ الْغَسْلُ بِانْقِضَآئِ الْمُدَّةِ ۔ ( مسلم الثبوت) اس پر یہ اعتراض ہے کہ سرایت حدث کے مانع ہونے والی بات اُس وقت مانی جا سکتی ہے جب پاؤں کا دھونا جائز ہی نہ ہو جیسا کہ چوتھی قسم کا تقاضا ہے حالانکہ موزے اُتارے بغیر بھی اِن کو دھونا جائز ہے۔ اسی لیے اگر کوئی موزے پہنے پہنے نہر میں اُتر جائے اور پانی موزوں کے اَندر چلا جائے تو اُس کا مسح ختم ہوجاتا ہے اور پاؤں دُھلنے کی وجہ سے پچھلی مدت کے ختم ہونے پر دوبارہ پاؤں دھونے کی ضرورت نہ ہوگی۔ ہماری ساتر حدث القدمین والی بات کی رُو سے یہ مسئلہ بالکل درُست ہے اور ہمیں تسلیم ہے کیونکہ پاؤں میں حدث تو موجود تھا جو موزے کی وجہ سے چھپا ہوا تھا۔ جب موزوں کے اَندر پانی گیا اور پاؤں دُھلا تو اُس کا حدث زائل ہوگیا اور مسح کی نئی مدت کا حساب شروع ہوگیا۔ لیکن مانع سرایت حدث ماننے والوں کو اِس اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت ہوئی اور ابن ِ ہمام رحمة اللہ علیہ کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ مسح کے باطل ہونے اور پاؤں کے دُھلنے کے مسئلہ کی روایت صحیح نہیں۔ وَاُجِیْبَ بِمَنْعِ صِحَّةِ رِوَایَةِ بُطْلَانِ الْمَسْحِ بَلْ نَقُوْلُ لَا یَبْطُلُ الْمَسْحُ وَرَضِیَ بِھٰذَا الشَّیْخُ اِبْنُ الْھُمَامِ فِیْ فَتْحِ الْقَدِیْرِ۔ (مسلم الثبوت وفواتح الرحموت) اِس جواب پر پھر یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ روایت فتاوی ظہیریہ وغیرہ جیسی معتبر کتابوں میں مذکور ہے لہٰذا اِس کی روایت کی صحت کو نہ ماننا بلادلیل ہے وَرُدَّ بِاَنَّ الرِّوَایَةَ مَذْکُوْرَة فِی الْکُتُبِ الْمُعْتَبَرَةِ کَالظَّھِےْرِیَّةِ وَغَیْرِھَا۔ (مسلم الثبوت) اِس اعتراض کا جواب بحر العلوم رحمة اللہ علیہ نے اِس طرح دیا کہ امام محمد بن فضل رحمہ اللہ کے فتاوٰی