ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2008 |
اكستان |
|
تونسوی اپنی تقریروں میں زہری پرکلام کرتے ہیں میں نے جوکچھ لکھاہے اُس کاحوالہ ضروردیاہے۔ (4) ایک ضروری بات جسے ہم اکثرنظراَندازکرجاتے ہیں یہ ہے کہ تزکیۂ صحابہ قرآن شریف سے ثابت شدہ مسئلہ ہے، اللہ تعالیٰ نے اِن کے لیے اپنی رضاکااظہارفرمایاہے دین کی پوری عمارت ہی اِن کے دم سے قائم ہے۔نبی ۖ کے وہ براہ راست تلامیذہیں نیزیہ بھی اپنی جگہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اِنسان کے کمال کی بڑی علامت اُس کے کردارکی پختگی ہے۔ نبی کریم ۖ نے صحابہ کوامتحانات کی بھٹیوں میں سے گزارکراُن کے کردارکوسونابنادیاتھا۔ صحابہ کاکرداردین کی ایک مستقل قدرہے جوروایت صحابی کے کردار کو مجروح کرتی ہو وہ میرے لیے قابل تأمل ہے اِس باب میں میں تاویل اورتوجیہ کاراستہ نہیں اختیار کرتا نیزایسی روایت راوی میں بغض ِصحابہ کاپتہ دیتی ہے اِس لیے قابل ِردہے۔ ہم قرآن اوررسول پرایمان کے مکلف ہیں ۔رجال ِکتب پرایمان ضروری نہیں اورنہ ہم سے قیامت کے دن اِس کی بازپرس ہوگی۔زہری کی خرابی کے لیے اِتناکہہ دینا کافی نہیں ہے کہ اِن سے تسامح ہواہے خودساختہ لمبی لمبی تاریخی روایتیں جن کوارباب ِسنن ومسندادنے نیک نیتی سے قبول کرلیاہے اِن کی صحت کی دلیل نہیں بن سکتی ۔محدثین صرف احکام کی روایات کوجرح وتعدیل کے بعدقبول کرتے ہیں، تاریخی روایات کوبغیرنقدکے قبول کرلیتے ہیں۔ اِس لیے امام بخاری یاامام احمد نے اگرزہری کی روایات قبول کی ہیںتویہ ہماری جرح سے متصادم نہیں ہیں۔ پھرایسی روایات یعنی احکام کی صرف زہری سے ہی منقول نہیں ہیں بلکہ اورحضرات بھی اِن روایات کے راوی ہیں۔ اِس لیے اِن کی صحت پرکوئی اثرنہیںپڑتا۔ جیسے اُن حضرات نے نیک نیتی سے قبول کیاہماری جرح بھی نیک نیتی پرمبنی ہے۔ہمیں زہری یاعبدالرزاق سے کوئی کدنہیں ہے۔ وہ حدیث کی خدمت کی وجہ سے بے حدقابل ِاحترام ہیںمگراُن کی جوروایات کردارِصحابہ سے متصادم ہیں ہم نے اُن کے مالہ وماعلیہ پر بحث کی ہے اوردلائل دیے ہیں۔ ہرعالم کوحق حاصل ہے کہ اِنہیں ردکرے یاقبول کرے یاسکوت کرے۔ جوکچھ لکھا ہے بدلائل لکھاہے اوررجال کی کتب کاحوالہ دیاہے کوئی بات بھی بِلا ثبوت نہیں ہے ۔وضع حدیث کی سب سے خطرناک قسم اِدراج ہے اُس کی گرفت بے حدمشکل ہے اوریہ عبدالرزاق کے ہاں پائی جاتی ہے۔ لُعَبُھَا مَعَھَا اُس کاایک نمونہ ہے۔