ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
بیسویں صدی شروع ہوتے ہوتے یہودی برطانیہ میںایک زبردست طاقت بن چکے تھے اِنہوں نے روٹ شیلڈ اور ساسن کمپنیوں کے ذریعہ برطانیہ کی اقتصادیات،بنک، تجارتی اورصنعتی کمپنیوں پرقبضہ کر لیا تھا برطانیہ کی حدود میں سونے ، الماس اور پتیل وغیرہ کی کانوں پر بھی وہ قابض ہوگئے، انگلینڈ کے سنٹرل بنک کے جو کاغذی نوٹ جاری کرتا ہے، اکثر شیئرز اِنہو ں نے خرید لیے تھے، اِسی طرح ایران، عراق اور کویت میں برطانیہ کی پیڑول کمپنیوں کو بھی خرید لیا۔ میدانِ سیاست میں اِنہوں نے اِس درجہ نفوذ حاصل کیا کہ لارڈ ریڈنگ حاکم ہندوستان اور لارڈ ماونٹ بیٹن یہودی تھے۔ برطانیہ کے شاہی نظام کے ممبران میںمندرجہ ذیل یہودی لیڈر ان داخل تھے : (١)فیکانیٹ سموئیل( ٢)لارڈ ناتھن (٣) لارڈ سلکن( ٤) سر ہنری سلسیر( ٥) سر پیرس ہارس (٦) سر سڈنی ابرافرے( ٧) سرلونیل کوھن( ٨) سر فیلکس کاسل( ٩) ہاربلیچ( ١٠) امانمول سثویل ( ١١) چڑاؤس۔ اِن کے علاوہ ایک لمبی تعداداُن سیاست کاروں اور ممبران کی ہے جو نیم یہودی تھے اُن میں اکثر کو وزارتی مناصب اور عہدے حاصل ہوتے رہے، وذارتی مناصب سے کم دیگر مناصب پرتو بے شماریہودی فائز ہوئے۔ یہودیوں کے برطانیہ پر اَثرات نے برطانوی قوم کو مسخ کر کے رکھ دیا، لندن کی میونسپلٹی کے صرف ایک الیکشن میں ٢٧ یہودی کامیاب ہوئے، تمام برطانوی پارٹیوں پر بھی یہودیوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ کنزرویٹیو ہو، یالیبر، کمیونسٹ ہو یالبرلسٹ ہر پارٹی اِن کو راضی کرنے اوراِن سے مالی امداد کی بھیک مانگنے میںلگی رہتی ہے، برطانیہ کا کوئی بھی حکمراں یا ذمہ دارشخص یہودی شکنجہ سے باہر نہیں ہے، یہودیوں نے اِنہیں اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔(جاری ہے)