ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
جب تک اِس ناکارہ کا قیام سہارن پور میںرہا تو ایسے لوگ بکثرت رہتے تھے جو میرے مہمان ہوتے، اُن کے کھانے پینے کا انتظام تو میرے ذمّہ تھا لیکن قیام اہل ِمدرسہ کی جانب سے مدرسہ کے مہمان خانے میں ہوتا تھا اور وہ بدلتے سدلتے رہتے تھے، صبح کی نماز کے بعد میرے مکان پر اُن کے ذکر کا سلسلہ ایک گھنٹہ تک ضرور رہتا تھا اور میری غیبت میں سُنتا ہوں کہ عزیزی طلحہ کی کوشش سے ذاکرین کی وہ مقدار اگرچہ نہ ہو مگر بیس پچیس کی مقدارروزانہ ضرور ہوجاتی ہے، میرے سہارنپور کے قیام کے زمانہ میں تو سَو سوا سَو تک پہنچ جاتی تھی اور غیبت کے زمانہ میں بھی سنتا ہوں کہ چالیس پچاس کی تعداد عصر کے بعدجمعہ کے دن ہو جاتی ہے اُن میں باہرکے جو مہمان ہوتے ہیں وہ دس بارہ تک اکثر ہوجاتے ہیں، عزیزی مولوی نصیرالدین سلمہ' اللہ تعالیٰ اُس کو بہت جزائے خیردے اُن کے کھانے کا انتظام میرے کتب خانہ سے کرتے رہتے ہیں۔اِسی طرح میری تمنا ہے کہ ہر مدرسہ میں دو چار ذاکرین مسلسل ضرور رہیں کہ داخلی اور خارجی فتنوں سے بہت اَمن کی اُمید ہے ورنہ مدارس میں جو داخلی اور خارجی فتنے بڑھتے جارہے ہیں اَکابر کے زمانہ سے جتنا بُعد ہوتا جائے گا اِس میں اِضافہ ہی ہوگا۔ اِس ناکارہ کو نہ تحریر کی عادت نہ تقریر کی، آپ (مولانا بنوری) جیسا یا مفتی شفیع صاحب جیسا کوئی شخص میرے مافی الضمیر کو زیادہ وضاحت سے لکھتا تو شاید اہل ِمدارس کے اُوپر اِس مضمون کی اہمیت زیادہ پیدا ہوجاتی۔ اِس ناکارہ کے رسالہ فضائل ِذکر میں حافظ ابن قیم کی کتاب ''الاوابل الصیب'' سے ذکر کے سو کے قریب فوائد نقل کیے گئے ہیں جن میں شیطان سے حفاظت کی بہت سی وجوہ ذکر کی گئی ہیں۔ شیاطینی اثر ہی سارے فتنہ وفسادکی جڑہے۔ فضائل ِذکر سے یہ مضمو ن بھی اگر آں جناب سُن لیں تومیرے مضمونِ بالا کی تقویت ہوگی،اِس کے بعد میرامضمون تواِس قابل نہیںجو اہل ِمدارس پر کچھ اَثراندازہو سکے۔ آپ میری درخواست کو زور دارالفاظ میں نقل کر اکر اپنی یا میری طرف سے بھیج دیں تو شاید کسی پر اَثر ہوجائے۔ دارُالعلوم، مظاہرعلوم، شاہی مسجد کے ابتدائی حالات آپ کو مجھ سے بھی زیادہ معلوم ہیں کہ کن صاحب ِ نسبت اصحابِ ذکر کے ہاتھوں اِن کی اِبتداء ہوئی ہے۔ اِن ہی کی برکات سے یہ مدارس اَب تک چل رہے ہیں، یہ ناکارہ دُعاؤں کا بہت محتاج ہے، بالخصوص حسن ِخاتمہ کا کہ گور میںپاؤں لٹکائے بیٹھاہے ۔ فقط والسلام حضرت شیخ الحدیث صاحب بقلم حبیب اللہ٣٠ نومبر سنہ ١٩٧٥ء مکہ مکرمہ