ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
میرے اَکابر نوراللہ مرقد ہم کے یہاں طلبہ کے آداب پربھی خصوصی نگاہ رہتی تھی اوّل تو اُس زمانہ میں اَکابر اوراساتذۂ کرام کا احترام طلبہ کے اَندر کچھ ایسا مرکوز تھا کہ اَب وہ باتیں یاد آکربہت ہی رنج و قلق ہوتا ہے۔ حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ' کو بھی اِس کا بہت احساس تھا، اضافاتِ یومیہ حصہ ششم مطبوعہ تھانہ بھون ص ٣ پرایک ملفوظ میں فرماتے ہیں کہ : '' فلاں مدرسہ میںایک وقت میںاَکابر کی ایسی جماعت تھی کہ ہر قسم کی خیروبرکات موجود تھیں ظاہر کے اعتبارسے بھی اورباطن کے اعتبارسے بھی، اُس وقت تعمیر اتنی بڑی نہ تھی مگر ایک ایسی چیز اِتنی بڑی تھی کہ مدرسہ خانقاہ معلوم ہوتا تھا ، ہر چہار طرف بزرگ ہی بزرگ نظرآتے تھے، اب سب کچھ ہے اورپہلے سے ہرچیز زائد ہے مگر وہ چیز نہیں جو اُس وقت تھی گویا جسد ہے رُوح نہیں۔ میں نے مہتمم صاحب (یعنی حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ) سے کہاتھا کہ اگر اِس موجودہ حالت پر مدرسہ نے ترقی بھی کی تو یہ ترقی ایسی ہوگی جیسے مر کر لاش پھول جاتی ہے جو ضخامت میں ترقی ہے مگر پھولنے کے بعد وہ جس وقت پھٹے گی اہل ِمحلہ اہل ِبستی کو اُس کا تعفّن پاس نہ آنے دے گا''۔ انتہیٰ اِن ہی حالات کی وجہ سے میرے والد حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ' انتہائی فکر مند رہا کرتے تھے، مدارس کی فتنوں سے حفاظت کے لیے جو چیزاُنھیں سب سے زیادہ مؤثر نظر آئی و ہ مدارس میں تعلیمی نظام کی پختگی کے ساتھ ذکر اللہ کانظام ہے، چنانچہ اِس سلسلہ میں بکثرت ذمّہ دارانِ مدارس کو خطوط لکھواتے، زبانی ترغیب دیتے اورخود بنفس ِنفیس سفر کرکے مدارس میں خانقاہوں کاقیام عمل میں لاتے۔ آخر دَور میں تو حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ' اِس کے لیے حد درجہ بے قرار وبے چین نظر آتے تھے۔ چنانچہ دارُالعلوم دیوبند سمیت متعدد بڑے اور اہم مدارس کے ذمّہ داران کو آپ نے اِس جانب متوجہ فرمایا۔ سینکڑوں اَعذار و اَمراض اور انتہائی ضعف کے باوجود اپنے ملک کے مختلف علاقوں کے علاوہ ایشیائ، یورپ، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک کے دَورے فرمائے اور ہرجگہ اپنے متوسلین یا جو بھی اہل اللہ یا اہل ِ نسبت آپ کو نظر آئے اُن کو بٹھاکر اصلاح ِ باطن کا کام سپرد فرمادیا اور ذکر اللہ کی مجالس قائم کیں اور استقامت