ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
دیا ہے۔ اِسی عریضہ میں عرض کیا تھا کہ اِس روایت کے روایوں پر بھی جرح کی جاسکتی ہے مگر آپ جیسے عالم کے لیے مزید کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے پاس اِس کے صحیح ہونے کا یقینا ثبوت ہو گا۔ برائے مہربانی اُس کی صحت کے دلائل سے مطمئن فرمائیں اگر جواب اثبا ت میں نہیں تو ماہنامہ میثاق میںاپنی غلطی کا اعتراف فرمائیے۔ اِس سے آپ کی شان کم نہیں ہوگی بلکہ آپ کا وقار مسلمانوں کی نظروں میں بڑھ جائے گا۔ اگر آپ کو ہر دو صورتیں پسند نہیں تو میں خود مسلمانوں کو اِس غلط فہمی سے نکالنے کی کوشش کروں گا۔ میرے اِس پہلے خط کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا کہ ''اِس خاص حدیث کے بارے میں ہمارے اَساتذہ اِس تشریح کے قریب ہی تشریح کرتے آئے ہیں جو میں نے کی ہے۔'' پھر اُسی سانس میں آپ نے لکھ دیا کہ '' یہ حدیث نہ باطل ہے نہ صحت کے درجہ کو پہنچتی ہے۔'' میں نے دُوسرا عریضہ لکھا تو آپ نے نصف خط تو ذاتیات پر ختم کر دیا اور کام کی صرف ایک بات لکھی کہ '' اگر کوئی حدیث صحت کے درجے کو نہیں پہنچتی تو کیاقابلِ احتجاج نہیں ہوتی۔'' اس خط میں دُوسری بات آپ نے یہ لکھی کہ '' نیز بلاشبہ تصوف یعنی احسان کا سب سے بڑا دروازہ حضرت علی ہیں۔ چاروں طریقے بلا اِنقطاع آپ پر ہی منتہی ہوتے ہیں۔'' میں نے تیسرا خط لکھا تو اُ س میں آپ نے متعدد کتب کے نام گنواکر خواہ مخواہ خط کو طول دیا کام کی بات کوئی نہ تھی۔ میں نے روایت ِمذکورہ کے متعلق حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب کا جو حوالہ دیاتھا۔ آپ نے اُس پر بڑی تفصیل سے اِنکاری صورت میں پورا خط ختم کردیا۔ مجھے مجبوراً چوتھے خط میں پھر آپ کو متوجہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی جس کا تاحال کوئی جواب نہ ملا۔ میں بذریعہ عریضہ ہذٰا بذریعہ رجسڑی خط آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت ! ہماری اِس قسم کی علمی لغزشوں سے فریق ِمخالف فائدہ اُٹھا کر اپنے گندے اعتقادات بڑی چابک دستی سے سُنّی عوام کے دماغوں میں ٹھونسنے میں کامیاب ہوتا جارہا ہے۔ ہمیں نسلی عصبیت کو خیر باد کہہ کر اَخلاقی جرأت سے کام لیتے ہوئے سچ کو سچ اورجھوٹ کو جھوٹ کہنے میں ذرا بھرتا ٔمل نہیں کرنا چاہیے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کے سامنے سید محمود احمد عباسی کی کتب پیش کی گئیں۔