ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جنوری 2008 |
اكستان |
|
بذریعہ رجسٹرڈ خط عرض کیا تھا کہ آپ نے خدام القرآن کی قرآن کا نفرنس میںاپنے مقالہ میں بغیر کسی سیاق و سباق کے اِن کلمات کو بطور ِحدیث پیش فرمایا ہے۔ مجھے مطلع فرمائیے کہ اِن الفاظ کا روایات کے سلسلہ میں کیا مقام ہے اور ساتھ ہی عرض کیاتھا : ١۔ ابن ِالجوزی کہتے ہیں کہ اگرچہ ترمذی نے اِسے روایت کیا ہے۔ تاہم یہ موضوعات میں شمار کی جاتی ہے۔ اِس کے جملہ طرق موضوع ہیں اور اِس کا متن خود اِس کے موضوع ہونے کی شہادت دیتا ہے۔ جب نبی علیہ السلام کی ذات علم کا شہر ہوئی اور اُس کا دروازہ صرف ایک علی ہوا۔ تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضور کے اقوال و اِرشادات کے مبلغ صرف علی ہوئے۔ اِس سے دین ِاسلام کا فساد لازم آتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ راویانِ حدیث میں سیدنا علی کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے۔ ٢۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں : فَعُلِمَ اَنَّ الْحَدِیْثَ اِنَّمَا اِفْتِرَائُ زِنْدِیْق جَاھِل نَطَقَہ مَدْحًا وَ ھُوَ بِطَرِیْقِ الزَّنَادِقَةِ اِلَی الْقَدْحِ فِی الْاِسْلَامِ۔ ٣۔ علامہ سخاوی لکھتے ہیں : لَیْسَ وَجْہ صَحِیْح ۔ ٤۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں : وَقَالَ ابْنُ مَعِیَنٍ اِنَّہ کِذْب لَااَصْلَ لَہ وَکَذَا قَالَ اَبُوْحَاتِمٍ وَیَحْیَی بْنُ سَعِیْدٍ وَاَوْرَدَہ اِبْنُ الْجَوْزِیُّ فِی الْمَوْضُوْعَاتِ وَاَوْفَقَہُ الذَّھَبِیُّ وَغَیْرُ ذَالِکَ وَقَالَ ابْنُ دَقِیْقِ الْعِیْدِ ھٰذَ الْحَدِیْثُ لَمْ یُثْبِتُوْہُ وَقِیْلَ اِنَّہ بَاطِل وَقَالَ دَارُقُطْنِیْ غَیْرُ ثَابِتٍ (موضوعات الکبیر) ٥۔ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں : حدیث اَنَامَدِیْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِیّ بَابُھَا رَوَاہُ التِّرْمَذِیُّ مِنْ حَدِیْثِ عَلِیٍّ وَقَالَ ھٰذَا الْحَدِیْثُ مُنْکَرًا وَاَنْکَرَہُ الْبُخَارِیُّ رَأْسًا وَالْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرَکِ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ صَحِیْحٍ وَقَالَ الذَّھَبِیُّ ھُوَ مَوْضُوْع وَقَالَ اَبُوْذُرْعَةَ کَمْ خَلْقٍ اِفْتَصَحُوْا فِیْہِ وَقَالَ یَحْیَی بْنُ مَعِیْنٍ لَااَصْلَ لَہ۔ ٦۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں : اَخْرَجَہُ النَّاسُّ وَ فِیْ اَسْنَادِہ جَمَاعَة مِّنَ الْمَجْرُوْحِیْنَ وَالْمَجَاھِیْلِ۔ (قرة العینین) ٧۔ شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں : اِس حدیث کو امام نووی علامہ ذہبی امام جزری نے مردود قرار