ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
اُنہوں نے مزید کہا کہ عام شہریوں کا خون بہانا ہر معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے لیکن گزشہ چند برسوں میں ہم شہریوں کا ہی خون بہارہے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ان کے خیال میں اِس طرح کی بے چینی موجود ہے تو کیا وہ اِتنی شدید ہوسکتی ہے کہ اِس کے بارے میں اِقدامات کرنے پر غور کیا جائے تو اَسد دُرانی کا کہنا تھا کہ فوج کے اندر ایک خاص قسم کا ''چین آف کمانڈ'' کلچر موجود ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حکم کی تعمیل فوج کے ڈسپلن کا حصہ ہے۔ جنرل اَسد دُرانی کا کہنا تھا کہ جب آپ کسی بیرونی طاقت کی اِیماء پر اپنے لوگوں پر حملے کرتے ہیں تو اِس کا اثر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اُن کے بقول جو لوگ قبائلی علاقوں کو سمجھتے تھے اُنہوں نے کہا تھا کہ وہاں کارروائی نہ کریں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اتحادی ہونے کے باوجود ہم اپنی اندرونی (پالیسیوں) کا دفاع کرسکتے تھے لیکن ہم نے قبائلی علاقوں میں کارروائی شروع کردی۔ اِس کارروائی کے جواب میں مقامی اور غیر ملکی عسکریت پسندوں نے بہت کامیاب مزاحمت کی اور ہمیں شدید نقصان پہنچایا۔ خفیہ اِدارے کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے مقامی لوگوں کے ساتھ کیے ہوئے اَمن معاہدے کا اِحترام نہیں کیا۔ اگر ہم اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے کا اِحترام نہیں کرتے تو پھر معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ (ایسی بے چینی کی صورتِ حال میں) وہ پاکستان کے حکمرانوں کو کیا مشورہ دیتے ہیں تو جنرل دُرانی نے کہا کہ وہ مشورہ نہیں دیا کرتے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ'' اگر فوجی ایکشن غلط ہے تو نہ کیجیے۔ لوگوں کے ساتھ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے یہ عمل کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔ فوج ایکشن سے پرہیز کرے اور جو غلطیاں ہوئی ہیں (فوج) اُس کی معافی مانگے''۔ اِس سوال کے جواب میں کہ کیا حالات کی بہتری کیلیے سیاسی اِقدامات بھی ضروری ہیں؟ اَسد دُرانی نے کہا کہ یہ ایک بنیادی بات ہے۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آیا (صدر مشرف) کا وَردی اُتارنا اِس سلسلے میں پہلا قدم ہوسکتا ہے تو اَسد دُرانی نے کہا کہ وردی کے ساتھ صدر