ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
دینی مسائل ( مہر کا بیان ) مہرِ مثل کا بیان : خاندانی مہر یعنی مہر مثل کا مطلب یہ ہے کہ اُس عورت کے باپ کے گھرانے میں کوئی دُوسری عورت دیکھو جو اُس کے مثل ہو یعنی اگر یہ کم عمر ہے تو وہ بھی نکاح کے وقت کم عمر ہو ،اگر یہ خوبصورت ہے تو وہ بھی خوبصورت ہو،اِس کا نکاح کنوارے پن میں ہوا تو اُس کا نکا ح بھی کنوارے پن میں ہواہو۔نکاح کے وقت جتنے درجے کی مالدار یہ ہے اُتنی ہی وہ بھی تھی ،جس شہر ودیس کی یہ رہنے والی ہے اُس دیس کی وہ بھی ہے، اگر یہ دیندار ہوشیار ،سلیقہ دار پڑھی لکھی ہے تو وہ بھی ایسی ہی ہو ۔غرض کہ جس وقت اُس کا نکاح ہوا ہے اُس وقت اِن باتوں میں وہ بھی اِس کے مثل تھی جس کا اَب نکاح ہوا تو جو مہر اُس کا مقرر ہوا تھا وہی اِس کا مہر ''مہرمثل'' ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وصف کی مقدار میںدونوں یکساں ہوں بلکہ مراد یہ ہے کہ اصل وصف میں دونوں شریک ہوں ۔اِسی طرح شوہر کی حالت کا بھی اعتبار کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اگر بڑی عمر کا ہے تو جوان کے مقابلے میں عام طور سے اِس سے زیادہ مہر لیا جاتا ہے ۔ مسئلہ : باپ کے گھر انے کی عورتوں سے مراد ہیں جیسے اُس کی بہنیں ،پھوپھی ،چچا زاد وغیرہ یعنی اُس کی ددھیالی لڑکیاں ۔مہر مثل دیکھنے میں ماں کا مہر نہ دیکھیں گے ۔ہاں اگر ماں بھی باپ ہی کے گھرانے میں سے ہو جیسے باپ نے اپنے چچا کی لڑکی سے نکاح کرلیا تھا تو اُس کا مہر بھی مہر مثل کہا جائے گا۔ مسئلہ : مہر مثل کی جو تعریف اُوپر لکھی گئی ہے اُس کی تحقیق کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں زوجین کی صفات کے اختلاف سے مہر بدلتا ہے اور جہاں مہر خاندانی ہرحال میں ایک ہو کہ خاندان کی ہر لڑکی کا مہر اِس سے کم نہ ہوگااور اکثرحا لات میں زیادہ بھی نہیں ہوتا تو وہاں مہرِ خاندان ہی مہرِ مثل ہو گا ۔ہندو ستان پاکستان کے اکثر مقامات میں ہر قوم کا مہر معین ہوتا ہے اُس سے کم وبیش نہیں ہوتا ۔لہٰذا اِسی کو مہرِ خاندانی کہا جائے گا اور اگر کسی قوم میں مہر کی مختلف مقدار یں ہوں تو ہر لڑکی کی پھوپھیوںاور چچا زاد بہنوںکامہر اُس کے حق میں مہرِ مثل ہو گا۔