ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
تواضع سے متعلق چند بزرگوں کی حکایتیں : ٭ حضرت اسماعیل شہید بہت تیز مزاج مشہور تھے۔ ایک شخص آزمانے کے لیے آیا۔ اُس وقت مولانا عام مجمع میں تشریف رکھتے تھے۔ اُس نے پکار کر کہا کہ مولانا میں نے سنا ہے کہ آپ حلال کی پیدائش نہیں ہیں (یعنی حرامی ہیں)۔ حضرت مولانا کے اندر ذرا بھی تغیر نہ آیا (غصہ نہ ہوئے) اور ہنس کر فرمایا کہ آپ سے کسی نے غلط روایت کیا ہے، میرے ماں باپ کے نکاح کے گواہ اَب تک موجود ہیں۔ ٭ حضرت مولانا احمد علی محدث دہلوی سہارنپوری بیٹھے ہوئے حدیث کا درس دے رہے تھے، ایک شخص نے سامنے آکر برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا شروع کیا۔ شاگرد بگڑے اور چاہا کہ اُس کی خبر لیں۔ مولانا نے سب کو منع فرمایا اور یہ فرمایا کہ جو کچھ کہتا ہے سب تو غلط نہیں ہے کچھ تو سچ بھی ہے۔ (الخصوع ص٣٢١) ٭ حضرت گنگوہی ایک دفعہ حدیث کا سبق صحن میں پڑھارہے تھے کہ اِتنے میں بارش ہونے لگی۔ سب طلباء کتابیں لے کر مکان کے اندر بھاگے۔ مولانا نے کیا کیا کہ سب لڑکوں کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اُٹھاکر چلیں، لوگوں نے دیکھا کہ یہ حالت ہے تو مارے شرم کے کٹ گئے۔ سبحان اللہ ! نفس کا تو اِن لوگوں میں شائبہ بھی نہ تھا۔ (حسن العزیز ص ٤/٢٣٧) ٭ ایک شخص ایک بزرگ کے سامنے سے اَکڑتا مکڑتا ہوا گزرا۔ اُن بزرگ نے فرمایا کہ اِترا کر مت چل اللہ تعالیٰ ایسی چال کو پسند نہیں کرتا۔ وہ شخص بہت بگڑا اَور کہا کہ جانتے نہیں میں کون ہوں؟ اُن بزرگ نے فرمایا کہ جانتا ہوں کہ تیری اِبتداء تو یہ ہے کہ تو ایک گندہ پانی ہے (یعنی تو ناپاک قطرہ تھا جس سے پیدا ہوا ہے) اور اِنتہا ء تیری یہ ہے کہ تو مردہ ریزہ ریزہ ہے۔ اور درمیانی حالت یہ ہے کہ تو پاخانہ کا بوجھ اپنے پیٹ میں اُٹھارہا ہے۔ واقعی ہم لوگوں کی حقیقت یہی ہے۔ اَب ہم مجلس میں یہاں بڑے معزز بنے بیٹھے ہیں۔ ابھی اگر پیٹ پھٹ جائے یا پیٹ میں ایک سوراخ کھل جائے تو بدبو کی وجہ سے یہاں لوگوں کا بیٹھنا دُشوار ہوجائے گا۔ معتقدین کا سارا اِعتقاد رُخصت ہوجائے گا۔ ہم کو اِس کا خیال نہیں ورنہ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر ایک کی حالت یہ ہے کہ ایک ایک کے پیٹ میں کم اَز کم دو تین سیر نجاست موجود ہے۔ اِتنا بڑا عیب تو لیے پھرتے ہیں پھر بھی اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں۔ کتنی بڑی حماقت اور جہالت ہے۔ یوں نہ سمجھو کہ ہم بڑے ہیں بلکہ یوں سمجھو کہ ہم سڑے ہیں۔ ایسی ایسی حکایتیں دیکھا کرو، پھر انشاء اللہ فخر کا دعویٰ نہ رہے گا۔ (باقی صفحہ ٦٢)