ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2007 |
اكستان |
|
چوہدری محمد رفیق صاحب قسط : ٢، آخری اِسلام اور غامدیت … ایک تقابل غامدی صاحب کے عقائد و نظریات متفقہ اِسلامی عقائد و اَعمال (٢١) بنو ہاشم کو زکوٰة دینا جائز ہے۔ (٢١) بنوہاشم کو زکوٰة دینا جائز نہیں۔ (٢٢) اِسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل ِنفس، فساد فی الارض) پر دی جاسکتی ہے۔ (٢٢) اِسلامی شریعت میں موت کی سزا بہت سے جرائم پر دی جاسکتی ہے۔ (٢٣) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔ (٢٣) دیت کا حکم اور قانون ہمیشہ کے لیے ہے۔ (٢٤) قتل ِخطا میں دیت کی مقدار تبدیل ہو سکتی ہے۔ (٢٤) قتل ِخطا میں دیت کی مقدار میں تبدیلی نہیںہوسکتی ۔ (٢١) ''بنی ہاشم کے فقراء و مساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰة کے اَموال سے اَب بغیر کسی تردد کے پوری کی جاسکتی ہیں۔'' (قانون ِعبادات، ص ١١٩ طبع اپریل ٢٠٠٥ئ) (٢٢) (الف) ''اِن دو جرائم (قتل ِنفس اور فساد فی الارض) کے سوا، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اُسے قتل کرڈالے۔'' (برہان ص ١٤٣ طبع چہارم جون ٢٠٠٦ئ) (ب) ''اللہ تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ اِن دو جرائم (قتل ِ نفس اور فساد فی الارض) کو چھوڑکر، فرد ہو یا حکومت، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اُسے قتل کرڈالے۔''(میزان ص ٢٨٣ طبع دوم اپریل ٢٠٠٢ئ) (٢٣) چنانچہ اِس (قرآن) نے اِس (دیت کے) معاملے میں ''معروف'' کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ قرآن کے اِس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی معروف کا پابند ہے۔ ہمارے معاشرے میں دیت کا کوئی قانون چونکہ پہلے سے موجود نہیں ہے اِس وجہ سے ہمارے اَرباب ِ حل و عقد کو اِختیار ہے کہ چاہیں تو عرب کے اِس دستور کو برقرار رکھیں اور چاہیں تو اِس کی کوئی دُوسری صورت تجویز کریں،وہ جو صورت بھی اِختیار کریں گے معاشرہ اُسے قبول کرلیتا ہے تو ہمارے لیے وہی ''معروف'' قرار پائے گی۔ (برہان ص ١٨ طبع چہارم جون ٢٠٠٦ئ)